وجے روپانی حکومت کے سامنے ایک طرف جہاں کسانوں ، بیروزگار نوجوانوں اور تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کر رہے ریاست کے تقریباً 5 لاکھ سرکاری ملازمین کے سخت احتجاج کا سامنا ہے تو دوسری طرف استحصال کے شکار دلت طبقہ سے وابستہ افراد اور شراب نوشی اور نشہ خوری کی وجہ سے پریشان حال خواتین کی بھی ناراضگی جھیلنی پڑی ہے۔ اس سب کے ساتھ روپانی حکومت کے سر پر ترقی کے ’گجرات ماڈل ‘کا دفاع کرنے کی بھی ذمہ داری آن پڑی ہے۔
گجرات کے کسانوں میں بی جے پی حکومت کے تئیں فصلوں بلخصوص کپاس اور مونگ پھلی کے واجب دام نہ مل پانے کی وجہ سے سخت ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
بھلے گجرات انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور چھٹی بار وہ بر سر اقتدار آئی ہے لیکن 182 ارکان پر مشتمل اسمبلی کی سیٹوں پر جیت کے معاملہ میں وہ سو کے ہدف کو بھی نہیں چھو سکی اور اسے محض 99 سیٹیں ہی حاصل ہو سکیں، جوکہ اکثریت سے محض 7 سیٹ ہی زیادہ ہے۔ بی جے پی اکثریت اس وجہ سے حاصل کر پائی کیوں کہ شہری علاقوں میں اسے حمایت حاصل ہوئی ہے۔
وجے روپانی حکومت کے سامنے 2019 کے عام انتخابات کے لئے متاثرہ کسانوں، بےر وزگار نوجوانوں اور زمین سے محروم دلت مزدوروں کا اعتماد حاصل کرنے کا بڑا چیلنج ہے۔ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ جن تین بڑی تحریکوں نے گزشتہ بی جے پی حکومت کی ناک میں دم کر دیا تھا وہ آگے مزید مضبوطی کے ساتھ چلائی جائیں گی۔
23سالہ نوجوان پاٹیدار رہنما ہاردک پٹیل کی قیادت میں چلائی گئی ریزرویشن تحریک کے ذریعہ پاٹیدار طبقہ کے افراد ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے موجودہ او بی سی ریزرویشن میں اپنے لئے سیٹیں مختص کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ لیکن اب شاید اس تحریک میں وہ تیزی نہ دیکھی جا سکے کیوں کہ پاٹیدار رہنما خود اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ آئین کی موجودہ صورتحال کے مطابق یہ مطالبہ پورا ہونا ممکن نہیں۔
ہاردک پٹیل نے حال کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کی مخالفت میں ریلیاں کی ہیں اور ان کی ریلیوں میں اچھی خاصی بھیڑ بھی امنڈ رہی تھی ۔ انہوں نے کسانوں، دلتوں اور اقلیتوں کے مسائل بھی اٹھائے اور اس طرح وہ صرف اور صرف پاٹیداروں کے رہنما کی شبیہ سے باہر نکلنے کے لئے کوشاں نظر آئے۔ ایک اور دلچسپ واقعہ کے تحت وڈگام حلقہ انتخاب سے آزاد امیدوار کے طور پر جیت درج کرنے کے فوری بعد جگنیش میوانی نے ہاردک پٹیل سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
ہاردک اور جگنیش کے ساتھ او بی سی ، ایس سی ، ایس ٹی ایکتا منچ کے کنوینر الپیش ٹھاکور بھی کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جنہوں نے سوراشٹر اور شمالی گجرات کے دیہی علاقوں میں بی جے پی کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچایا۔
الپیش ٹھاکور جنہوں نے رادھن پور سیٹ سے جیت حاصل کی ہے وہ لگاتار ملازمتوں میں معاہدہ نظام کی مخالفت کر رہے ہیں اور خالی اسامیوں کو او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی سے پر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریاست میں تقریباً 6 لاکھ سرکاری ملازمین ہیں جو تنخواہ کے علاوہ تعطیلات، پی ایف، پینشن اور مستقل ملازمت جیسے فائدوں سے محروم ہیں۔
’گجرات کھیڑت سماج ‘نامی کسانوں کی تنظیم نے بھی کسانوں کی زمینوں پر سرکاری قبضہ کر کے اسپیشل اکنامک زون ، خصوصی سرمایہ کاری علاقہ قائم کرنے اور اور دیہی علاقوں کی شہر کاری کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
احتجاجو ں کی سنجیدگی کے پیش نظر وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے اشارہ دیا ہے کہ ان کی حکومت میں کسانوں کے مسائل کا کاازالہ کرنا اعلیٰ ترجیحات میں شامل رہے گا ۔
وجے روپانی کا وزیر اعلیٰ کے طور پر یہ دوسرا دورانیہ ہے ، جو اس بار کانٹو ں بھرا تاج بھی ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ عام انتخابات میں اب محض 1.5 سال وقت ہی باقی بچا ہوا ہے اس لئے روپانی حکومت کو کسانوں ، بیروزگار نوجوانوں اور دلتوں کی امیدوں پر کھرا اترنے کئے لئے دوگنی تیزی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز