ارض انبیاءؑ فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے 11 روز تک جاری رہنے والی بہیمانہ جارحیت و دہشت گردی اور غزہ کے سرفروشوں کی دلیرانہ استقامت و پا مردی کے بعد آخر کار اسرائیل کو اندرونی و عالمی سطح پر رسوا ہونے کے بعد جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ جمعہ کوعلی الصبح غزہ میں جنگ بندی کا نفاذ کر دیا گیا۔ جنگ بندی پر اتفاق اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ پیشکش اسرائیل کی طرف سے کی گئی تھی۔ اسرائیل کی یہ پیش کش در اصل اپنی شکست کا واضح اعلان تھا جسے پوری دنیا نے سنا اور تسلیم کیا۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد فلسطینی عوام نے سڑکوں پر نکل کر’نعرہ تکبیر‘ کے ساتھ جشن منایا، وہیں اپنے دلیر اور جاں بکف دفاعی گروہوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
Published: undefined
مغربی میڈیا اسرائیل کی کامیابی کے قصیدے پڑھ رہا ہے، لیکن اسرائیل میں ماتم کا ماحول ہے۔ ایسے میڈیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہارے ہوئے لوگ جشن نہیں مناتے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی عوام زیر زمین پناہ گاہوں سے نکل کر اپنے گھروں کی طرف لوٹتی نظر آئی، لیکن اسرائیل میں کہیں بھی جشن کا ماحول دکھائی نہیں دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ فلسطینیوں نے اس فتح کو حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کے جنازے اٹھائے، نوجوانوں کی لاشوں کو کاندھا دیا، اپنے گھروں کو زمین دوز ہوتے ہوئے دیکھا، زخمیوں کی فلک شگاف چیخیں سنیں، مگر پیچھے نہیں ہٹے، کیونکہ فلسطینی بخوبی جانتے ہیں کہ بغیر قربانی اور شہادت کے فتح حاصل نہیں ہوتی۔
Published: undefined
قابل غور امریہ ہے کہ جنگ کا آغاز یوم قدس کے فوراَ بعد ہوا، جو ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے منایا جاتا ہے۔ اسی دن بیت المقدس میں اسرائیلی فوج نے جارحیت کا آغاز کیا جس میں 700 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کی اس جارحیت نے غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کو حملے پر مجبور کر دیا۔ فلسطین کی طرف سے اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف یہ پہلا ایسا مؤثر حملہ تھا جس نے اسرائیلیوں کی نیند حرام کردی۔ یوم قدس کو جنگ کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی برکتوں نے جنگ کے نتائج کو فلسطین کے حق میں کر دیا۔
Published: undefined
11 روزہ اس جنگ میں اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اس دوران اسرائیل پر تابڑ توڑ فضائی اور زمینی حملے ہوئے جن میں بالعموم بچے اور خواتین نشانہ بنتے رہے۔ غزہ کے دلیر اور بہادر عوام نے کم از کم 235 شہیدوں کے خون کا نذرانہ پیش کیا، جن میں 100 سے زائد خواتین اور کمسن بچے شامل ہیں۔ قریب 1700 افراد زخمی بھی ہوئے، جبکہ سیکڑوں رہائشی مکانات، عمارتوں اور بنیادی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا، تاہم فلسطینی عوام نے اپنی عزت و شرف کا سودا نہیں کیا اور ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ قبلہ اول اور فلسطین پر قابضین کو سکون سے نہیں رہنے دیں گے۔ جس فلسطین کے پاس اپنی آرمی تک نہ ہو اس کی چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تنظیموں نے جنگ کو 11 دنوں تک کامیابی کے ساتھ جاری رکھا، یہ آسان کام نہیں تھا۔
Published: undefined
فلسطین کی استقامتی قوتوں کی اس بے مثال اور تاریخی جوابی اور دفاعی کارروائیوں کو دیکھ کر ساری دنیا حیران اور انگشت بدنداں رہ گئی ہے اور ماہرین کے بقول اس جنگ نے محض 52.5 لاکھ کی آبادی پر مشتمل فلسطین کے مقابلے 1948 میں جنم لینے والے تقریباً 90 لاکھ کی آبادی والے اسرائیل کی کمزوریوں کو بخوبی عیاں کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل جہاں آبادی کے لحاظ سے دہلی اور ممبئی سے بھی کم ہے وہیں علاقائی رقبہ کے طور پر دیکھا جائے تو دنیا کی واحد یہودی ریاست ہمارے کیرالہ سے بھی چھوٹی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں نے ہرمعاملے میں خود سے ’طاقتور‘ اسرائیل کا مقابلہ کیا۔ جنگ بندی پر اتفاق رائے سے ٹھیک پہلے آخری حملہ حماس نے ہی کیا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر اپنی برتری ثابت کر دی۔
Published: undefined
اس بار یہودی شدت پسندی کے مرکز تل ابیب پر بھی تاریخ کا سب سے بڑا راکٹ حملہ کیا گیا جس کے بارے میں کبھی اسرائیل نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ یہودیوں کا دفاعی سسٹم آئرن ڈوم جس پر انہیں بڑا ناز تھا، وہ بھی مکمل طور پر مقبوضہ علاقوں میں رہائش پذیر یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا اور یہودیوں کی بڑی تعداد اپنے شب و روز زیر زمین بنے ہوئے، بنکروں اور پناہ گاہوں میں گزارنے پر مجبور ہو گئی۔ اس طرح قدس، غرب اردن کا غزہ اور 1948 کے علاقوں نیز فلسطینی کیمپوں کے درمیان تعاون کے تجربے نے فلسطینیوں کی آئندہ حکمت عملی کو مشخص و معین کر دیا ہے۔ جرائم کا تسلسل اور جنگ بندی کی درخواست دونوں باتیں ہی اسرائیل کی شکست شمار ہوتی ہیں، وہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
Published: undefined
مصر کی کوششوں سے جمعہ کو علی الصبح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی تو ہوگئی تاہم اب بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے امن کی گہری بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل میں بہت سارے لوگ امن کو خاموشی کے طور دیکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ فلسطینیوں کے لیے طویل ناانصافی کی صورت حال ہے۔ ان حالات میں عالم اسلام پر فلسطین کے تعلق سے کچھ ذمہ داری اور دینی فریضہ عاید ہوتا ہے، سیاسی شعور اور حکمرانی کا تجربہ بھی اس حکم کی تائید اور تاکید کرتا ہے۔ آج پہلے کی نسبت مسلم ممالک کو فلسطین کی حمایت میں پورے خلوص کے ساتھ میدان میں آجانا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ شجاع اور مدبرانہ قیادت کی تلاش کریں اور ملت اسلامیہ کے مفادات کی حفاظت کے لیے اسلام کے کھلے ہوئے دشمنوں سے پنجہ آزمائی کریں۔
Published: undefined
جب فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں اسرائیل کو شکست دے سکتی ہیں تو مسلم ممالک کے دل و دماغ پر اس کا خوف کیوں طاری ہے؟ آخر انہوں نے اس جنگ میں کھل کر فلسطین کی حمایت کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ تمام مسلمان ممالک فلسطین کی حمایت کے زبانی دعوے کرتے رہے اور کسی نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا، یہ افسوس ناک ہے۔ او آئی سی کا اجلاس کسی اہم نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہا، کیونکہ او آئی سی میں شامل تمام ممالک اسلام دشمنوں کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی حال میں اسرائیل کے خلاف نہیں جاسکتے۔ اسی طرح اقوام متحدہ جس کا اب تک صرف قراردادیں پاس کرنے کا ریکار رہا ہے، وہ بھی فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں اپاہیج نظر آیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined