ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے جہاں مختلف مذاہب نشو و نما پاتی رہی ہیں۔ مسلمان ہندوستان کی زمین پر تقریباً 12 صدیوں سے موجود ہیں اور وہ ملک میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی طبقہ ہے۔ ان کی مذہبی روش ہمارے سماج کا ایک غیر منقسم حصہ ہے اور سماج انھیں طویل مدت سے قبول کرتاآیا ہے۔ اس منظرنامہ میں نوئیڈا کے سیکٹر 58 کے تھانہ انچارج پنکج رائے کے ذریعہ گزشتہ مہینے کے شروع میں جاری نوٹس حیران کرنے والا ہے۔ یہ نوٹس نوئیڈا علاقہ میں واقع مختلف کمپنیوں کے اعلیٰ انتظامیہ کو جاری کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ نوئیڈا کا سیکٹر 58 پارک نوئیڈا اتھارٹی کی ملکیت ہے اور اسے ’’جمعہ کی نماز سمیت کسی بھی مذہبی اجتماع کے لیے استعمال کیے جانے پر پابندی ہے‘‘۔
نوٹس میں آگے لکھا تھا ’’ایسا دیکھا گیا ہے کہ انھیں ایسا نہ کرنے کی صلاح کے باوجود اور سٹی مجسٹریٹ کے ذریعہ وہاں نماز ادا کرنے کی اجازت سے انکار کے بعد بھی آپ کی کمپنیوں کے مسلم ملازمین وہاں بڑی تعداد م میں جمع ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ سے امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنی سطح پر اپنے مسلم ملازمین کو یہ مطلع کریں کہ وہ اس پارک میں نماز نہ ادا کریں اور اگر اس کے بعد بھی وہ وہاں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ مانا جائے گا کہ آپ نے ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچائی ہے اور اس کے لیے آپ کی کمپنی ذمہ دار ہوگی۔‘‘
اس پارک میں گزشتہ کئی سالوں سے نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ بجرنگ دل کے کچھ کارکنان نے وہاں نماز ادا کیے جانے کا ویڈیو بنا کر اس کی شکایت انتظامیہ سے کی تھی۔ تقریباً 6 مہینے پہلے گڑگاؤں، جو کہ اب گرو گرام ہے، میں نماز ادا کر رہے لوگوں پر حملہ کر انھیں منتشر ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ہریانہ حکومت کے ایک وزیر نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ مسلمان عوامی مقامات پر جمع ہو کر ’لینڈ جہاد‘ کر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی اور گھٹیا لفظ ہے جسے تازہ تازہ استعمال کیا گیا ہے۔ ہم سبھی یہ جانتے ہیں کہ عوامی مقامات پر مسلمان نماز ادا کرتے آئے ہیں۔ نماز پرامن طریقے سے ادا کی جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ نصف گھنٹہ میں نمازی وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اسے زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش بتانا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ نماز کی وجہ سے کسی طرح کا شور شرابہ ہوتا ہے یا آس پاس رہنے والے لوگوں کو کوئی پریشانی ہوتی ہے، یہ بھی غلط ہے۔ نماز ادا کرنے کا ایک متعین وقت ہوتا ہے اور مسلمانوں کے لیے جمعہ کی نماز انتہائی اہم ہوتی ہے۔ ان کے دفاتر سے مساجد دور ہونے کی وجہ سے انھیں وقت بچانے کے لیے دیگر مقامات پر نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ملک میں عوامی مقامات کا استعمال اجتماعی مذہبی تقاریب کے لیے کیے جانے کی طویل روایت ہے۔ درگا پوجا اور گنیش اُتسو کے دوران ہر شہر میں سڑکوں کے کنارے اور چوراہوں پر پنڈال لگائے جاتے ہیں۔ حال کے کچھ سالوں سے ہنومان جینتی، ہندو نئے سال اور رام نومی کو بھی عوامی طور سے منانے کی روایت شروع ہو گئی ہے۔ کچھ ہندو تہواروں پر جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں لوگ ہاتھوں میں ننگی تلواریں اور ترشول لیے ہوتے ہیں۔
نوئیڈا کے معاملے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ تھانہ انچارج نے یہ نوٹس اوپر سے ہدایت ملنے کے بعد دیا یا انھوں نے اپنے سیاسی آقاؤں کی خواہش سمجھ کر خود یہ پیش قدمی کی۔ بلند شہر ضلع کے نیا بانس گاؤں میں کچھ مسلمانوں نے اس لیے گاؤں چھوڑ دیا کیونکہ ان میں سے کچھ کا الزام تھا کہ انھیں گاؤں میں نماز ادا کرنے نہیں دی جا رہی۔ اتر پردیش میں پولس افسران کے ذریعہ کانوڑ یاتراؤں پر پھول اور پنکھڑیاں برسانے کی کئی مثالیں ہیں۔جبکہ کانوڑیوں کے ذریعہ سڑکوں پر ہنگامہ کرنے کے کئی واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
Published: undefined
نماز پرامن طریقے سے ادا کی جاتی ہے اور اس کے برعکس ایسی کئی مثالیں ہیں جب آرتیوں کا استعمال فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا۔ ممبئی میں 93-1992 میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کی جانچ میں یہ سامنے آیا کہ 26 دسمبر 1992 اور 5 جنوری 1993 کے درمیان 35 مہا آرتیاں منعقد کی گئیں۔ ان میں سے کئی کے فوراً بعد فرقہ وارانہ تشدد ہوئے۔ اتر پردیش، ہریانہ اور دیگر مقامات پر جس طرح کا ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے وہ فکر انگیز ہے۔ اس سے مسلمانوں کے ذہن میں عدم تحفظ کا جذبہ مزید بڑھے گا۔
دوسری طرف عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کیرول گلوکاروں اور پادریوں پر تشدد آمیز حملے ہوتے آئے ہیں۔ اوپن ڈورس نامی ادارہ کے ذریعہ دنیا کے سبھی ممالک کا اس بنیاد پر تجزیہ کیا جاتا ہے کہ وہاں عیسائیوں کو اپنے مذہبی امور میں کتنے خطرات ہیں۔ اس فہرست میں ہندوستان کا مقام چار سال پہلے 31واں تھا جو کہ سال 2017 میں 15واں ہو گیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستانی آئین کی دفعہ 25 سبھی اشخاص کو اپنے مذہبی عمل کی آزادی دیتا ہے اور اپنے مذہب کو ماننے، اس کے فرائض ادا کرنے اور اس کی تشہیر کا بھی حق دیتا ہے۔ اگر کسی عوامی مقام پر عبادت کرنے کی اجازت طلب کی جاتی ہے تو انتظامیہ کو جہاں تک ممکن ہو یہ اجازت دینی چاہیے، کیونکہ عبادت مذہبی امور کا حصہ ہے۔ ریاست اور انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے کے لیے سیکورٹی دستیاب کرائے۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی یقینی کرنا چاہیے کہ کسی ایک طبقہ کی مذہبی سرگرمی سے دوسرے طبقہ میں خوف یا عدم تحفظ کا جذبہ پیدا نہ ہو۔ عوامی طور پر کی جانے والی مذہبی سرگرمی پرامن طریقے سے مکمل کی جانی چاہیے۔ ان سبھی باتوں کے پیش نظر بمشکل نصف گھنٹہ پر مشتمل نمازِ جمعہ کو عوامی مقامات پر ادا کیے جانے کی اجازت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز