ساری دنیا میں اس وقت ہر سیاسی پارٹی دائیں بازو کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے نفرت انگیزی، زہر افشانی اور اشتعال کا سہارا لے رہی ہیں۔ ہندوستان سے لے کر امریکہ کے حالیہ انتخابات تک جہاں تک بھی نظر جاتی ہے، نسل کشی، نفرت انگیزی، مذہبی دل آزاری جیسے واقعات نے انتہا پسند لیڈروں کو ان کی اوقات دکھادی ہے، باوجود اس کے کچھ بے شرم لوگ ایسے بھی ہیں جو علاقے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں رسوا اور ذلیل وخوار ہو کر بھی نام نہاد ’راشٹر بھکتی‘ کا چولا اتارنے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسے تمام لیڈروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پر امن سماج میں زہر گھولنے اور بھائی کو بھائی سے لڑا کر اپنا سیاسی وجود بہت دن تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سماج اور نوجوان سیاسی راشٹر بھکتی اور حقیقی حب الوطنی کا مطلب سمجھنے لگے ہیں۔
Published: undefined
زمانہ قدیم میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت سیاسی لیڈران سمیت بلا تفریق عوام مذہب سے بالا تر ہو کر مہذب سماج کو قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے تھے۔ یہ تو ابھی 5-6 سال کے عرصے میں ہی دیکھا گیا ہے جب تاریخ کے کسی کونے میں بھی جگہ نہ پانے والے شدت پسندانہ نظریات کے حامل لوگوں نے سیاست کا ایک نیا مطلب نکال لیا ہے جس میں کرسی حاصل کرنے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنا ہے خواہ ان کے اس طرزعمل سے انسانی خون کی ندیاں ہی کیوں نہ بہہ جائیں۔ ایسے سماج مخالف نظریات کے دلدل میں پلے بڑھے لوگوں کو جب سماج نے حقارت کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے اپنی تحقیر کا بدلہ لینے کے لیے سیاسی ہتھیار اٹھا لیے اور پھر جو بھی ان کے سامنے آیا اسے مکمل طور پر ٹھکانے لگا دیا۔
Published: undefined
2014 کے لوک سبھا انتخابات سے شروع ہوا نفرت انگیزی اور تقسیم کا سلسلہ حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات تک پہنچا ہے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخابات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منفی سوچ کی زمین اب تنگ ہوگئی ہے جو کبھی بھی اپنی موت آپ ہی مرسکتی ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں بھی نسل کشی، نفرت، مذہبی دل آزاری جیسے واقعات نے موجودہ صدر کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ہندوستان میں بھی ٹرمپ کے نظریات کی حامل قیادت کو فی الحال عوامی تائید حاصل ہے لیکن یہ پارٹی کب تک خیر منائے گی کیونکہ اب تک اس پارٹی کی کامیابی کی دوڑ برقرار ہے لیکن حیدرآباد میں اس نے فرقہ پرستی کے کارڈ کا استعمال کرکے عوام کو منقسم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس کے نتائج سوچ کر ہر امن پسند شہری فکر مند ہے۔
Published: undefined
یہ حالات ابھی چند سالوں میں ہی پیدا کیے گئے ہیں جب ایک خاص نظریئے کے تحت اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ لوگوں نے سیاست کی انگلی پکڑی تو چشم زدن میں ہی آفتاب سیاست بننا چاہتے تھے۔ ان کے لیے نہ تو ملک کی روایت اہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی عوام کے حقوق کا کوئی پاس لحاظ ہے انہیں صرف اپنے مقاصد پورے کرنے ہیں۔ موجودہ وقت میں کچھ ممالک کے سربراہ ایسے ہیں جوعوام بشمول تعلیم یافتہ طبقہ کو یہ احساس کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے، جو ہم کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو اس بات پر دھیان دینا ہوگا کہ جہاں پر جمہوری حقوق نہیں ہیں وہاں تو ایسی باتیں کی جاسکتی ہیں مگر ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک میں جہاں مضبوط جمہوریت ہے وہاں اس طرح کی روش واضح طور پر تاناشاہی کہی جائے گی۔
Published: undefined
امریکہ میں آئے حالیہ بدلاو کا سہرا وہاں کے مضبوط نظام کے سرباندھا جاسکتا ہے جہاں لوگوں کی جو سوچ (ناراضگی یا خوشی) تھی وہ کھل کر سامنے آئی جس کے بعد صورتحال پوری طرح پلٹ گئی لیکن تاریخ میں اس کے برعکس جرمن اور اٹلی میں جب ہٹلر یا مسولینی کا دور تھا، وہاں جب حقوق ہی نہیں رہ گئے تو اسی انداز میں چلتا رہا مگر ہندوستان یا دیگر کئی ممالک بشمول برازیل میں جہاں اس طرح کی طاقتیں ابھریں ان کے خلاف احتجاج ہوئے، وہاں پر اثرات نظر آئے کیونکہ وہاں جمہوریت مضبوط ہے۔ جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک جہاں جمہوریت کمزور کردی گئی وہاں یہ لوگ بہت گہرا زخم دے کر گئے۔ ان حالات میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا ہمارے لیے مثال بنتے ہیں جہاں ایسی طاقتیں سر اٹھاتے ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔
Published: undefined
نیوزی لینڈ جہاں ایک مسجد میں جاکر ایک شخص گولہ باری کرتا ہے اور حکومت بدنیتی سے آزاد ہو کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسے ہینڈل کرتی ہے اور دوسروں کو شبہ کے دائرے میں نہیں کھڑا کرتی ہے۔ اسی طرح آج نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کورونا کے معاملے میں بھی سب سے کامیاب ممالک کہے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ممالک تمام دنیاوی تماشوں سے الگ اپنے عوام کی بہتری کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں اورعوام کو جو حقوق حاصل ہیں انہیں جبراً سلب کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اسی لئے ان ممالک کے عوام کھل کر اپنی بات رکھتے ہیں اور جو بھی حقیقت ہوتی ہے وہ سامنے آتی ہے۔ حکومت اورعوام کے درمیان جو مسئلہ ہوتا ہے اسے خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت تانا شاہ ہوجاتی ہے اور جمہوریت نہیں رہ جاتی ہے تو حالات جرمنی اور اٹلی جیسے بن جاتے ہیں۔ جس طرح جرمنی میں ہٹلر اور مسولینی جو آئے تو جمہوری طریقے سے ہی تھے مگر انہوں نے جمہوری حقوق ختم کر دیئے۔
Published: undefined
ان حالات میں اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان سے عاجز آکر آئے دن عوام سڑکوں پر اتر رہے ہیں اور اپنے حقوق کا استعمال کر رہے ہیں مگرحکومت ہر معاملے کو اپنی انا کا سوال بنا کرعوامی آواز کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت حقیقت کا سامنا کرنے کو ہی تیار نہیں ہے یا یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں حقیقت پسندی ختم ہو رہی ہے (یا ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں) جو اصلی خطرہ ہے۔ جب آدمی حق وباطل میں فرق کرنا ہی بھول جائے گا تو پھر زیادتی،غلط اور استحصال کی بات بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔ موجودہ وقت میں اگر دیکھا جائے تو حکومت کے رویئے سے مضبوط اور تاریخی جمہوریت کے حامل ہندوستان کی جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز