مظرنگر ضلع واقع گاؤں کوال کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ یہ وہی گاؤں ہے جہاں پر 2013 میں ایک قتل کی واردات ہوئی تھی جس کے بعد مظفر نگر میں فسادات کا خونیں کھیل کھیلا گیا اور ہزاروں مسلمانوں کو اپنے گاؤں سے ہجرت کرنے اور راحت کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ کوال مظفر نگر ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وکرم سینی یہاں سے بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں اور ان کی بیوی یہاں کی پردھان رہ چکی ہیں۔ مظفرنگر فساد کے بعد وکر سینی یہاں سے ضلع پنچایت رکن منتخب ہوئے اور اس کے بعد اسمبلی کے لئے بھی منتخب کر لئے گئے۔
وکرم سنگھ سینی کا ایک بیان حال ہی میں سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہو رہا ہے۔ ایک ویڈیو میں ان کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’’ایسے لوگ جو غدار ملک ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہمیں ملک میں خطرہ ہے، میں نے ان کے لئے بولا ہے کہ ان کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام ہونا چاہئے۔ ایسا سخت قانون بنے کہ جو ایسا بولے اس کے لئے سزا کا التزام ہو اور یہ غداری کے زمرے میں آئے۔ مجھ کو اگر حکومت وزارت دے تو میں انہیں بم سے اڑا دوں گا۔ فوج کے پاس بہت بم ہیں، وہاں سے لے کر یہ کام انجام دوں گا۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔‘‘
کوال کی آبادی تقریباً 8 ہزار ہے اور یہ مسلم اکثریتی گاؤں ہے۔ زیادہ تر مزدور ہیں اور روزی روٹی کمانے کے لئے روزانہ نجی بس سے سفر کرتے ہیں۔ کوال کے رہائشیوں کو اکثر باہری لوگوں کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ ’’یہاں ہندو اور مسلمان سب مل جل کر رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد یہاں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ وہ ایک بدنما داغ ہے جو ہمارے کوال کے ماتھے پر لگا دیا گیا ہے۔ ہم برے لوگ نہیں ہیں اور اب لوگوں کو کوال نام سننے پر حیرت زدہ ہونا بند کر دینا چاہئے۔‘‘
دراصل کوال میں ایک معمولی جھگڑے کے بعد جب تین قتل ہوئے گئے تو اس کے بعد یہاں پر مہاپنچایت بلائی گئی تھی، جس میں شامل بہت سے بی جے پی رہنما اب رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں، کسی کسی کو تو وزارت بھی حاصل ہوئی ہے۔ راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) مغربی یو پی کے ترجمان ابھیشیک چودھری کہتے ہیں کہ ’’وکرم سنگھ سینی ان بی جے پی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے زہر افشانی کی اور بعد میں انتخاب کے دوران تقسیم کاری کا فائدہ اٹھایا۔ بی جے پی رہنما اس لئے ہی فسادات کو اپنے لئے خوش آئند مانتے ہیں اور اکثر زہر اگلتے رہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
وکرم سینی کھتولی سے رکن اسمبلی ہیں جبکہ ان کا گاؤں کوال میران پور اسمبلی حلقہ انتخاب میں شامل ہے۔ کوال گاؤں کے رہائشی کلو قریشی کہتے ہیں کہ ’’وکرم سنگھ سینی کا بیان میں نے سنا ہے۔ بیان قابل اعتراض ہے لیکن ان کی بات کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ وہ پہلے بھی الٹے سیدھے بیان دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ تو اپنی بیوی کو ہی گالی دے دی تھی!‘‘ گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ مظفر نگر فساد کے دوران ان پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی ہوئی تھی اور انہیں ایک سال کی مدت جیل میں گزارنی پڑی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی نے انہیں کھتولی سیٹ سے ٹکٹ تھما دیا اور وہ جیت گئے۔
کوال کے سابق پردھان مہندر سینی نے کہا کہ ’’وکرم سینی کی زبان زہریلی ہے وہ سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں۔ کوال میں جھگڑے اور قتل کے واقعہ کو انہوں نے فرقہ وارانہ بنانے کا کام کیا تھا۔ ایم ایل اے بننے کے بعد انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندو ہردے سمراٹ بن گئے ہیں جبکہ ان کی خود کی ہی برادری ان سے ناراض ہے۔‘‘ کوال کے وسط میں واقع چوراہے پر وکرم سینی کے تعلق سے بات چل رہی تھی کہ ایک موٹر سائیکل پر پنکج کشیپ نامی شخص پہنچ جاتا ہے۔ وہ تیز آواز میں ان کی شان میں کشیدے پڑھنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ایم ایل اے نے غداروں کو بم سے اڑانے کی بات کی تھی۔ ہم ان کی بات کی حمایت کرتے ہیں۔ جو بھی اس ملک میں رہنے سے ڈر رہا ہے اسے بم سے اڑا دینا چاہئے۔‘‘ حالانکہ پنکج نے یہ بھی کہہ دیا کہ وکرم سینی ایسا کچھ کریں گے نہیں وہ تو بس سرخیوں میں بنے رہنے کے لئے ایسا کہہ گئے ہیں۔
ویسے گاؤں کے زیادہ تر لوگ اس معاملہ پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ محمد آفتاب (45) کہتے ہیں کہ ’’گاؤں والوں سے وکرم سینی کا رویہ خراب نہیں ہے، بلکہ رکن اسمبلی بننے کے بعد ان کا رویہ مزید بہتر ہوا ہے۔ گاؤں کے پردھان اسلام قریشی سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔‘‘ جے پال پرجاپتی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تئیں ان کا رویہ کیسا بھی ہو لیکن ہندوؤں کے ساتھ بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے کئی لوگوں کے خلاف فرضی مقدمے درج کرا دیے ہیں اور ایم ایل اے بننے کے بعد ان میں غرور آ گیا ہے۔ ‘‘
وکرم سینی کے اسمبلی حلقہ میں جانسٹھ قصبہ سیاسی مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ جانسٹھ کے سید برادران کو ایک وقت ہندوستان میں ’کنگ میکر‘ کہا جاتا تھا۔ جانسٹھ ایک حساس قصبہ ہے اور کئی بار وکرم سینی کا بیان یہاں کشیدگی کی وجہ بنا ہے۔ مقامی سماجی کارکن عارف شیش محلی کے مطابق وکرم سینی اچھے آدمی ہیں۔ ان کے پردھان بننے سے پہلے سے وہ انھیں جانتے ہیں۔ اپنی زندگی میں انھوں نے بہت زیادہ جدوجہد کیا ہے۔ وہ مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے۔ ایسی سیاست کو وہ اسی منظرنامے میں سمجھ رہے ہیں اور انھیں کامیابی اسی طرح کے بیانات سے ملی ہے۔ اب انھیں اس طرح کے بیانات آگے بڑھنے کا شارٹ کٹ معلوم ہوتا ہے۔
لیکن صرف زبان سے ہی وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں، ان کا کام بھی مسلمانوں کے خلاف بولتا ہے۔ رکن اسمبلی بننے کے فوراً بعد انھوں نے کھتولی کے مین چوراہے سے بریانی کی ٹھیلیا ہٹوا دی اور ایک جھٹکے میں درجنوں گھر بے روزگار ہو گئے۔ کھتولی آر ایل ڈی کے نگر پریسیڈنٹ وکیل احمد کے مطابق جان بوجھ کر ایک ہی سماج کے لوگوں کو نشانہ بنایا جانا ان کی اصلی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ رکن اسمبلی بننے کے بعد ان کے اندر رکن پارلیمنٹ بننے کی خواہش جاگ گئی ہے اس لیے وہ نااتفاقی کی آوازوں کو بم سے اڑا دینا چاہتے ہیں۔
گاؤں کے کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ وکرم سینی پہلے چاٹ کی ٹھیلی لگاتے تھے۔ ان کے گاؤں کے مہندر سینی کے مطابق ان کی 2 بیگھہ زمین تھی اور انھوں نے مزدوری بھی کی ہے۔ وکرم سینی کے انتخابی کمیشن کو دیے گئے حلف نامہ کے مطابق انھوں نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ وکرم سینی نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور انھیں لگتا ہے کہ ’فائر برانڈ‘ بننے کی ان کی شبیہ ہی ان کی پونجی ہے اور ان کی خواہشات اسی طرح کے کام سے پوری ہوں گی۔ اپنی صفائی میں رکن اسمبلی وکرم سینی ہم سے کہتے ہیں کہ ’’گاؤں میں پوچھ لیجیے کوئی مسلمان مجھے برا نہیں کہہ سکتا۔ کچھ سیاسی مخالفین ہیں اور ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ میڈیا میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ جو ملک غدار ہے ان کو بم سے اڑا دو، جو ملک میں رہ کر ڈرتے ہیں وہ زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتے۔ ہم گاؤں میں بھائی چارے سے رہتے ہیں جو یہاں رہ کر دوسروں کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ان کے لیے میں نے کہا تھا۔ مجھے نصیرالدین شاہ سے کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
جانسٹھ کے کانگریس لیڈر عباس علی خان کہتے ہیں کہ ’’وکرم سینی اپنے گاؤں میں مسلمانوں سے بنا کر رکھتے ہیں، وہاں صاف صفائی رکھتے ہیں جب کہ باہر گندگی پھیلتی رہتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں جب کہ ان کو سب کے لیے یکساں جذبہ رکھنا چاہیے۔‘‘ جانسٹھ کے باہر شکرتال مارگ پر کچھ نوجوان کبڈی کھیل رہے ہیں۔ وکرم سینی کے بیان پر وہ صرف ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’یہ بی جے پی یہی سب کریں گے، روزگار تو ہمیں دیں گے نہیں۔ ایسے ہی لیڈران نے ملک کا کوڑا کر رکھا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز