اتر پردیش میں ابھی اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان ہونے میں تاخیر ہے۔ اس لیے امیدواروں کے اعلان میں پارٹیوں کو بھی کوئی جلدبازی نہیں ہے۔ پھر بھی جس طرح کی فیلڈنگ سچ رہی ہے، اس میں دو باتیں صاف ہیں۔ ان میں سے ایک دہرانے جیسی بات ہے کہ بی جے پی اس بار ’رام لہر‘ بلکہ اسے ہندو بنام مسلمان کہیں تو بہتر ہے، پر سوار ہوگی۔ دوسری بات، اسے دھار دینے کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس بار ایودھیا سے الیکشن لڑیں گے۔ اس کے رسمی اعلان میں تو ابھی دیر ہے، لیکن پارٹی کے کئی سینئر لیڈر اسے تقریباً طے مان رہے ہیں۔
Published: undefined
وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ قانون ساز کونسل رکن چنے گئے ہیں۔ اس سے پہلے 1998 سے وہ گورکھپور سے پانچ بار لوک سبھا رکن چنے گئے۔ یوگی گورکھ ناتھ پیٹھ کے مہنت ہیں اس لیے گورکھپور آتے رہتے ہیں۔ ان کے وزیر اعلیٰ دور میں ترقیاتی منصوبوں کے معاملے میں بھی گورکھپور سرفہرست ہے۔ لیکن کچھ باتیں دھیان کھینچتی ہیں۔ جیسے، پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران یوگی 30 سے زیادہ مرتبہ ایودھیا گئے ہیں۔ گزشتہ دیوالی میں دیپوتسو کے وقت تو وہ خود ایودھیا آئے تھے، اب کی بار کے دیپوتسو میں وزیر اعظم نریندر مودی کی یاترا کی بھی تیاری ہے۔
Published: undefined
ویسے بھی ایودھیا میں رام مندر تعمیر کو لے کر سرگرمیوں کی بی جے پی اور حکومت تشہیر کرتی رہتی ہے۔ ان سب میں ایودھیا کے رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا کا بیان خاص اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ اگر ایودھیا سے لڑتے ہیں تو یہ قسمتی کی بات ہوگی۔ ہم اپنی سیٹ تو چھوڑیں گے ہی، یوگی جی کو جتانے کے لیے پوری طاقت لگا دیں گے۔ ترقی کی نئی عبارت لکھ رہے ایودھیا میں یوگی کا لڑنا سَنتوں-مہنتوں کے لیے بھی خوش قسمتی کی بات ہے۔‘‘ ویسے گورکھپور صدر رکن پارلیمنٹ روی کشن کہتے ہیں کہ ’’ویسے تو پوری ریاست ہی یوگی جی کا گھر ہے۔ وہ جہاں سے لڑیں گے، بمپر ووٹ سے جیتیں گے۔ لیکن اگر وہ گورکھپور سے لڑے، تو انھیں صرف نامزدگی کرنے یہاں آنا ہے۔ الیکشن تو یہاں کی عوام لڑے گی۔‘‘
Published: undefined
بی جے پی لیڈر مانتے ہیں کہ ’ہندوتوا کارڈ‘ کی دھار کو تیز کرنے کے خیال سے یوگی کا ایودھیا سے الیکشن لڑنا اہم ہوگا۔ ویسے بھی پارٹی نے مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کے ساتھ انوراگ ٹھاکر کو یو پی کا شریک انچارج بنا کر یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ الیکشن میں اس کا ایجنڈا ہندوتوا ہی رہنے والا ہے۔ مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ہی دہلی الیکشن میں ’ملک کے غداروں کو...‘ والا بیان دیا تھا۔ بھلے ہی بی جے پی کو دہلی الیکشن میں شکست جھیلنی پڑی لیکن اس بیان سے پارٹی نے اپنے کو کبھی الگ نہیں کیا۔
Published: undefined
گزشتہ دنوں بی جے پی سربراہ جے پی نڈا لکھنؤ میں تھے۔ وہاں ان کے بیانات سے صاف تھا کہ کورونا دور میں بدانتظامی، بڑھتی مہنگائی، کسانوں کے احتجاج، بے روزگاری اور تقرریوں کو لے کر سوالوں میں پھنسی بی جے پی یو پی الیکشن رام مندر، گئو رکا، مذہب تبدیلی اور آبادی بل کے ارد گرد ہی لڑے گی۔ نڈا نے کہا کہ ’بھگوان رام کی نگری ایودھیا، بابا وشوناتھ کی نگری کاشی اور بھگوان کرشن کی نگری متھرا کو یاد کیے بغیر اتر پردیش کا تصور ادھورا ہے۔‘‘ اس کے بعد ریاستی صدر سوتنتردیو سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ریاستی عوام کو لگتا ہے کہ اب اپنی حکومت ہے۔ اب کانوڑ یاترا میں پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ دیو دیوالی اور دیپوتسو کی گونج پوری دنیا میں ہے۔‘‘ متھرا پہنچ کر یوگی نے بھگوان کرشن کی جائے پیدائش ورنداون کے دس کلومیٹر کے دائرے میں گوشت اور شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کا اعلان تو کیا ہی، وہ ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے ’ابا جان‘، ’مسلموں کے ڈی این اے‘ جیسے متنازعہ بیانات کا سہارا لگاتار لے رہے ہیں۔ کشی نگر میں یوگی جی نے کہا کہ 2017 سے پہلے غریبوں کو ان کے حق کا اناج نہیں ملتا تھا۔ تب ’ابا جان‘ کہنے والے لوگ غریبوں کا راشن بنگلہ دیش اور نیپال بھیج دیتے تھے۔ وہیں گورکھپور میں انھوں نے کہا کہ رام ہمارے آباء ہیں اور جو جے شری رام نہیں بولتا، مجھے اس کے ڈی این اے پر شک ہے۔
Published: undefined
بی جے پی لیڈر کہتے ہیں کہ جو لوگ کسان تحریک کی وجہ سے سوچ رہے ہیں کہ بی جے پی اس دفعہ مغربی یو پی میں کمزور رہے گی، وہ منھ کی کھائیں گے۔ ان کی دلیل ہے کہ اس علاقے کے چھوٹے کسان اور بڑا طبقہ راشن تقسیم اور کسانوں کو دی جانے والی رقم کی وجہ سے بی جے پی کے حق میں بنے رہیں گے۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ علی گڑھ میں وزیر اعظم مودی کے جلسہ کے اثر کا اندازہ غیر بی جے پی لیڈر لگا ہی نہیں سکتے۔ یہاں مودی نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کے دوران کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے راجہ نے ہی زمین دی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مقابلے جاٹ چہرے کے نام پر یونیورسٹی کا پیغام پارٹی کے ہندوتوا کارڈ کا ہی حصہ ہے۔ ویسے کانگریس، سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے لیڈر اسے بی جے پی کی خوش فہمی مان رہے ہیں۔
Published: undefined
پھر بھی بی جے پی کو اندازہ ہے کہ اس بار اگر وسطی اور مشرقی یو پی سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں نہیں آئیں، تو اقتدار میں اس کی واپسی مشکل ہوگی۔ اس لیے وہ اس علاقے پر پورا فوکس کر رہی ہے۔ 18 اکتوبر کو مودی وزیر اعلیٰ یوگی کے قلعہ گورکھپور میں ایمس اور کھاد کارخانہ کی رسم رونمائی کرنے پہنچ رہے ہیں۔ ایودھیا سے 134 کلو میٹر کی دوری پر واقع گورکھپور اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے لیے زرخیز ہے۔ ایسے میں مودی یہاں ضرور ایسا کچھ کہیں گے یا کریں گے جس سے یو پی الیکشن میں بی جے پی ہندوتوا اور ہندو-مسلم تقسیم کرنے والا ایجنڈا سیٹ ہو جائے جس سے فائر برانڈ یوگی، ساکشی مہاراج سے لے کر انوراگ ٹھاکر جیسے لیڈروں کی سیاسی بیٹنگ آسان ہو سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز