آج ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے میرا سر شرم سے جھکا ہے۔ یہ شرم اس لئے نہیں کہ ہندوستا ن میں کوئی نقص ہے ۔ عظیم رنگا رنگ ثقافت و تہذیب کو خود میں سمو کر رکھنے والا یہ ملک بلاشبہ عظیم ہے۔ گوتم، رام، کرشن، چشتی، نانک ، میرا، کبیر خسرو، گاندھی نہرو جیسی بے شمار عظیم شخصیات کا یہ ملک بھلا عظیم کیوں نہیں ہوگا! لیکن ہم ہندوستان کے باشندگان میں عظمت کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ اگر ہم حقیقت میں عظیم ہوتے تو ملک کے دارالحکومت کے وسط میں اس عظیم ملک کی تین بیٹیاں بھوک سے تڑپ کر مر نہیں جاتیں۔
لعنت ہے ہم پر۔ کم از کم میں خود پر شرمندہ ہوں۔ اس راجدھانی کی چمک دمک اور بھاگ دوڑ میں ہم سب ایسے گم ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کوئی بھوک سے مر رہا ہے۔آ ج سےتقریباً 4 عشرے قبل ممبئی شہر میں وکٹوریا ٹرمینل کے نزدیک میں نے ایک بیمار بھکاری کو مرتے دیکھا تھا۔مجھے دو-تین دن تک ٹھیک سے نیند نہیں آئی تھی، لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ ہمارے شہر میں کم از کم یہ نہیں ہوتا ہے، ہم سوچتے تھے کہ دہلی میں لوگ بھوکے سو تو سکتے ہیں، لیکن بھوک سے مر نہیں سکتے۔
لیکن نہیں، اب یہ جھوٹ ثابت ہو چکا ہے. دہلی بدل گئی ہے، اب یہ بڑاشہر ہے، لیکن یہاں اب انسان نہیں، چھوٹے دل اور دماغ کے لوگ رہتے ہیں، اس شہر میں ایک نہیں، دو دو حکومتیں چلتی ہیں، مرکزی حکومت ہر وقت غربت کے خلاف مہم چلانے میں مصروف رہتی ہے۔ لیکن غربت نہیں مٹتی، ہاں غریب ضرور مٹ جاتا ہے، منڈاولی جہاں ابھی تین بچیوں نے بھوک سے دم توڑا ہے وہ دہلی کے نائب وزیر اعلی کا انتخابی حلقہ ہے، سسودیا جی جب چلتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک قافلہ چلتا ہے، ان کی دیکھ بھال پر روزانہ ہزاروں روپےخرچ آتا ہے، لیکن اگر ان کے علاقے میں کوئی بھوک سے تڑپ کر مر رہا ہو تو اس کو کھانا دینے کا حکومت کے پاس کوئی التزام نہیں ہے۔
Published: undefined
کیسی ستم ظریفی ہےبچیاں مر گئیں، علاقے کے کونسلر سے لے کر وزیر-سنتری تک کسی کو پتہ بھی نہیں چلا، لیکن اب اسی غریب کے گھر کے باہر سیاستدانوں کی لائن لگی ہوئی ہے، وہ غریب باپ جس کا رکشہ کھو جانے کے بعد وہ اپنے بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکا، اب بھی اس کا دل بے چین ہوگا کہ اگر ایک دن پہلے یہی لوگ اس کے دروازے پرآ جاتے تو آج یہ دکھوں کا پہاڑ اس پر نہیں ٹوٹا ہوتا۔
آج سے کئی دہائی قبل پریم چند نے ’کفن‘ کہانی لکھی تھی، اس کہانی میں ہیرو کی بیوی ایسے ہی بھوک سے مر جاتی ہے، پھر وہ کفن کے لئے جمع ہوئے چندے کے پیسوں سے شراب پی کر اپنا دکھ مٹا لیتا ہے، دہلی میں بھوک سے مری بچیوں کا باپ پریم چند کی اسی کہانی کے اہم کردار کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ وہ شرابی ہے، اس کا رکشہ چوری ہو چکا ہے، وہ نہ جانے کب سے بچوں کو کھانا نہیں کھلا پا یا ہے، اگر وہ اس حالت میں شراب سے اپنا غم مٹا رہا ہے تو شاید یہ اس کی غلطی نہیں، یہ اس معاشرے کی غلطی ہے جو پڑوس میں بھوک سے مرتے بچوں کو دو روٹی نہیں کھلا سکتے۔
ہندوستان ضرور عظیم ہے، لیکن ہم ہندوستانی عظیم نہیں ہو سکتے!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز