این ڈی ٹی وی انڈیا کے اینکر اور سینئر صحافی رویش کمار نے بہت پہلے اپنے ایک پروگرام میں ناظرین سے اپیل کی تھی کہ وہ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں ورنہ وہ ان کو اور ان کے بچوں کو قاتل بنا دے گا۔ انھوں نے یہ اپیل نیوز چینلوں پر ہونے والی ہندو-مسلم ڈبیٹ کے تناظر میں کہی تھی جس کے توسط سے پورے ملک میں مذہبی انتہا پسندی پیدا کی جا رہی ہے اور عدم برداشت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ اس ٹی وی ڈبیٹ نے کانگریس پارٹی کے ایک ہونہار اور سنجیدہ ترجمان راجیو تیاگی کی جان لے لی۔ اگلی باری کس کی ہے بس اس کا انتظار کیجیے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
راجیو تیاگی کی موت کن حالات میں ہوئی اور اس کے لیے براہ راست یا بالواسطہ کون لوگ ذمہ دار ہیں اس پر قومی آواز میں تفصیل سے شائع ہوچکا ہے۔ میں اس پر اظہار خیال کرنے کے بجائے ٹی وی ڈبیٹس کی شکل و صورت اور اس کے خطرناک عواقب و نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ جب ہندوستان میں پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور نہیں آیا تھا اور صرف سرکاری دور درشن ہی واحد چینل تھا تو اس وقت عوام میں اتنی نفرت نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں عدم برداشت یا عدم رواداری کا کوئی برا جذبہ پیدا ہوا تھا۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
اس کے بعد جب پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور شروع ہوا تو کئی برسوں تک ان چینلوں نے انتہائی مثبت رول ادا کیا۔ پورے ملک میں ہر چینل کے رپورٹر ہوتے تھے جو حالات و واقعات کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ وہ ملک کی زمینی سچائیوں سے اپنے ناظرین کو باخبر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی فضا اور سیاسی واقعات کے بارے میں انتہائی معروضی انداز میں پروگرام پیش کرتے تھے۔ کم از کم 2014 تک تو کم و بیش یہی صورت حال رہی۔ لیکن 2014 میں جب مرکزی اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو صرف حکومت ہی نہیں بدلی بلکہ بہت کچھ بدل گیا۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے اور حکومت کی خوشامد کا ایک نیا کلچر شروع ہو گیا جس کے تحت نیوز چینلوں کی رپورٹنگ کا انداز بدل گیا۔ بیشتر چینلوں نے فیلڈ سے اپنے بیشتر رپورٹر ہٹا لیے۔ صرف ضروری واقعات کی رپورٹنگ کے لیے رپورٹروں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں مباحثے یا ڈبیٹ کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی۔ مباحثے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن انتہائی معیاری اور سنجیدہ ہوتے تھے۔ بد کلامی، گالی گلوج اور بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک تو حکومت کی ہر چیز پر اپنا کنٹرول رکھنے کی پالیسی اور دوسرے میڈیا اداروں کی بوجوہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی روش نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
رفتہ رفتہ ان مباحثوں کو ایک خاص رنگ دیا جانے لگا۔ ایسا رنگ جو برسراقتدار طبقے کو سوٹ اور اپوزیشن کو بدنام کرے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے چینلوں کے مالکوں کو ہدایات دی جانے لگیں اور ایک خاص رنگ کی ڈبیٹ کو پروان چڑھانے کا حکم دیا جانے لگا۔ بتایا جاتا ہے کہ صبح کے وقت ہی یہ طے ہو جاتا ہے کہ شام کے پرائم ٹائم میں کس موضوع پر بحث کرانی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ کس کس کو اس بحث میں بلانا ہے اور ان سے کیا کیا بلوانا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے کارندوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
اس قبیح روایت کے شروع ہوتے ہی نیوز چینلوں میں مقابلہ آرائی بھی شروع ہو گئی اور اینکروں میں اس کا مقابلہ ہونے لگا کہ کون کتنی بد تمیزی کر سکتا ہے اور کون کس کی دستار اتار سکتا ہے اور پگڑی اچھال سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ کل چار پانچ افراد کو بحث میں بلایا جاتا ہے۔ جن میں ایک برسراقتدار جماعت کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایک آر ایس ایس کا نمائندہ یا اس کا وچارک یا نظریہ ساز ہوتا ہے۔ ایک اپوزیشن کا کوئی آدمی ہوتا ہے اور ایک نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
بحث شروع ہوتے ہی چیخم دھاڑ کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ حکومت اور آر ایس ایس کے نمائندے اپوزیشن کے نمائندے پر چڑھ بیٹھتے ہیں۔ وہ سارے لوگ اسی سے سوال کرتے ہیں مگر اسے جواب نہیں دینے دیتے۔ جب وہ اپنے جواب سے مخالفین کو قائل کرنے لگتا ہے تو اینکر بیچ میں کود پڑتا ہے اور حکومت کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے لگتا ہے۔ اگر اس پر بھی اپوزیشن کی آواز بند نہیں ہوتی تو اس کے مائک کا وولیوم کم کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک اینکر کو یاد آتا ہے کہ اسے تو بریک لینا ہے۔ اور پھر وہ بریک لے لیتا ہے اور اس طرح اپوزیشن کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
دراصل اینکر کے کان میں ایک لیڈ لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اپوزیشن کا نمائندہ حاوی ہونے لگتا ہے تو اینکر کے کان میں کہا جاتا ہے کہ اسے ٹھونک دو ورنہ تمھیں ٹھونک دیا جائے گا۔ پھر کیا؟ اینکر اپنی نوکری بچانے کے لیے تہذیب و شائستگی کی تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور اس طرح حکومت کا موقف حاوی ہو جاتا ہے یا حکومت کی پالیسیوں کو بحث میں برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ اینکر چیختا چلاتا ہے اور اپنے حریف سے جواب مانگتا ہے مگر اسے جواب نہیں دینے دیتا۔ وہ اپنی بات کو ملک کی بات کہنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک جاننا چاہتا ہے، نیشن جاننا چاہتا ہے۔ گویا اینکر کا سوال نیشن یا پورے ملک کا سوال بن جاتا ہے۔ اس طرح اس بحث کو جو کہ سنجیدگی کے ساتھ ہو سکتی تھی اکھاڑے کی کشتی میں بدل دیا جاتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
ڈبیٹ کے عنوان سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بحث کو کس رخ پر لے جانا ہے۔ مثال کے طور پر جس ڈبیٹ کے دوران راجیو تیاگی پر دل کا دورہ پڑا اس کا نام ہی ”دنگل“ ہے۔ دنگل اکھاڑے میں ہوتا ہے لیکن ان نیوز چینلوں نے اپنے اسٹوڈیو کو ہی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ ہاں جو نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے اسے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بحث میں جانے سے قبل اس کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اسے کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے اور کس کی حمایت یا کس کی مخالفت کرنی ہے۔ گویا کہنے کو تو وہ غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اسے بھی حکومت یا چینل کا نمائندہ بنا دیا جاتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
بحث کے دوران بدکلامی تو دور رہی گالی گلوج تک کی جاتی ہے اور مار پیٹ بھی ہو جاتی ہے۔ ایک سابق فوجی افسر ہیں جو کہ ڈبیٹ میں بڑے جوش خروش سے شرکت کرتے ہیں اور خود کو ایسا پکا دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا دیش بھکت کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے ایک ڈبیٹ کے دوران ایک پینلسٹ کو ماں کی گالی تک دے دی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اینکر پینلسٹ کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے تک کے لیے اکساتے ہیں اور اسٹوڈیو میں مار پیٹ تک کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
ان چینلوں پر زیادہ تر جذباتی ایشوز پر بحث کرائی جاتی ہے اور ان میں اقلیتوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس کا اثر عوام پر پڑنا لازمی ہوتا ہے۔ ان پروگراموں میں جھوٹ کی رسی بٹی جاتی ہے اور بے بنیاد الزامات کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان یا چین کے موضوع پر بحث کے دوران تو اینکر فوجی بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس اب جنگ ہونے والی ہے۔ ان لوگوں کا بس چلے تو ابھی جنگ کروا دیں۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
ان ٹی وی ڈبیٹس کے نتیجے میں سماج میں فرقہ واریت کا زہر پھیل گیا ہے اور آدمی آدمی سے نفرت کرنے لگا ہے۔ موب لنچنگ ہو یا فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات، یہ ڈبیٹس ایسی خطرناک اور تباہ کن چیزوں کی حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ ان کی عزت افزائی بھی کرتی ہیں۔ ان مباحثوں نے سماج کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کا اثر بھولے بھالے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کے دل و دماغ میں زہر پیوست کرتا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں پر دکھائی جانے والی رپورٹوں کا کتنا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان میں کرونا وائرس پھیلا ہے۔ حالانکہ اب مندروں اور دوسری جگہوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ کرونا کے مریض ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ اگر رام مندر ٹرسٹ کے صدر نرتیہ گوپال داس کے بجائے کسی مسجد کے ٹرسٹ کے صدر کو کرونا ہوا ہوتا تو اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ہوتا اور اس کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں شرکت کرنے والوں کے سلسلے میں کوئی جملہ ادا کرے۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
بہر حال یہ ٹی وی ڈبیٹس سماج کو تو بانٹ ہی رہی ہیں اب جان بھی لینے لگی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قاتل ڈبیٹس پر مکمل طور پر پابندی عاید کی جائے۔ اظہار خیال اور میڈیا کی آزادی کے نام پر اس خطرناک کھیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر ان پر پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو جیسا کہ کانگریس کے ایک لیڈر شیر گل نے مطالبہ کیا ہے، ان کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے رہنما ہدایات جاری کی جائیں۔ جو نیوز چینل ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان ڈبیٹس کے نتیجے میں ملک میں آگ لگی رہے گی اور لوگوں کا چین و سکون غارت ہوتا رہے گا۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Aug 2020, 10:07 PM IST