سیاسی

تین طلاق بل: لکیر پیٹتے رہیے سانپ تو گزر گیا... م۔ افضل

اب نہ تو کسی صفائی کی ضرورت ہے اور نہ دلیل کی لیکن کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اب اپنا احتساب کرے گا؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم بنا دیا گیا، اس بل کو لوک سبھا پہلے ہی منظور کرچکی تھی، بعد میں اس پر راجیہ سبھا کی مہر بھی لگ گئی اور صدرجمہوریہ اس پر دستخط بھی کرچکے ہیں، مودی سرکار تیسری کوشش میں یہ بل منظور کراسکی، اس سے پہلے بھی لوک سبھا میں اسے دو مرتبہ منظوری مل چکی تھی لیکن راجیہ سبھا سے یہ منظور نہیں ہوسکا تھا، راجیہ سبھا میں این ڈی اے کو اب بھی اکثریت حاصل نہیں ہے اور اگر اس کے بعد بھی 84 کے مقابلہ 99 ووٹ سے یہ پاس ہوگیا تو اس میں سرکار یا بی جے پی کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ سیکولر پارٹیوں کا وہ بے حس رویہ ذمہ دار ہے جو انہوں نے اس بل کے تعلق سے اختیارکیا۔

Published: undefined

اس سے پہلے لوک سبھا میں اس پر جب ووٹنگ ہوئی تو بی جے پی کی کچھ حلیف پارٹیوں خاص طور پر جنتادل یو نے اس کے خلاف واک آوٹ کیا تھا، اور جب راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ ہوئی تو جنتادل یو اور انا ڈی ایم کے کے ممبران نے طے شدہ حکمت عملی کے تحت ایوان سے واک آوٹ کیا اس صورت میں بھی یہ بل ایوان میں اوندھے منہ گرسکتا تھا لیکن ایس پی، بی ایس پی، ٹی آرایس، وائی آر ایس کانگریس اور ترنمول کانگریس کے کئی ممبران کی پراسرار غیر موجودگی سے بی جے پی کی راہ آسان ہوگئی۔

Published: undefined

قانون سازی سرکار اور پارلیمنٹ کا حق اور اختیار ہے کہ حسب ضرورت قانون میں ترمیم بھی ہوتی ہے اور کچھ نئے قانون بھی بنائے جاتے ہیں یہ ایک پارلیمانی عمل ہے اس لئے سرکارپر قانون سازی کو لے کر کوئی سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا لیکن جس طرح یہ بل تیار ہوا اور مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے طلاق ثلاثہ کو جرم بنانے میں مودی سرکارنے دلچسپی لی اس سے سرکار کی نیت اور منشاء ازخود شک کے دائرہ میں آگئی تھی، طلاق ایک سول میٹر ہے مگر اسے ایک جرم کے دائرہ میں لے آیا گیا ہے حالانکہ سول میٹر میں جرمانہ تو ہوسکتا ہے مگر سزا کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن طلاق ثلاثہ کو نہ صرف قانونی طور پر غلط قرار دے دیا گیا ہے بلکہ اسے ایک جرم بھی بنا دیا گیا ہے جس میں تین سال کی سزا کا بھی التزام ہے۔

Published: undefined

اپوزیشن پارٹیوں کا شروع سے مطالبہ تھا کہ آپ طلاق ثلاثہ کو قانونی طور پر غلط ٹھہرا دیں لیکن اسے جس طرح جرم کے دائرہ میں لایا گیا ہے یہ سراسر غلط اور شہری ومذہبی آزادی پر حملہ ہے مگر حکمراں پارٹی چونکہ پہلے سے ہی فیصلہ کرچکی تھی اس لئے اس نے اپوزیشن کے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ بل تضادات اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے، اپوزیشن لیڈروں نے بحث کے دوران اس کی نشاندہی بھی کی مگر سرکارنے کوئی ترمیم نہیں کی، جس طرح ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے پر تین برس کی سزا کا التزام رکھا گیا اس کو لے کر بھی بہت کچھ کہا گیا اور سرکار سے یہ پوچھا گیا کہ آخر وہ اسے قابل سزا جرم کیوں بنا رہی ہے اور اگر وہ مسلم خواتین کا بھلا ہی کرنا چاہتی ہے تو پھر شوہر کو جیل کیوں؟ ان اہم سوالوں کا سرکارکی طرف سے کبھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا بس دلیل دی جاتی رہی کہ یہ قانون صنفی مساوات، انصاف اور عورتوں کے وقارکے لئے ہے اور اس سے طویل عرصہ سے چلی آرہی ایک غلط رسم کا خاتمہ ہوجائے گا۔

Published: undefined

حالانکہ اس قانون کی سب سے بڑی خامی تو یہی ہے کہ طلاق ثلاثہ کو جرم تو ٹہرا دیا گیا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا اس صورت میں بیوی اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی یا نہیں؟ اور اگر نکاح میں رہے گی تو اس کا نان ونفقہ اور بچوں کی کفالت کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیونکہ شوہر تو جیل جاچکا ہوگا، پھریہ بھی نہیں بتایا گیا کہ نباہ نہیں ہونے کی صورت میں مسلم میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی کیا صورت ہوگی؟

Published: undefined

کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ بل مسلم خاندانوں کو تباہ و برباد کرنے والا ہے انہوں نے بھی یہ سوال کیا کہ شوہر جیل میں ہوگا تو بیوی کو معاوضہ کیسے ملے گا اور بچوں کی کفالت کا ذمہ کون اٹھائے گا؟ انہوں نے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کا اس تعلق سے فیصلہ ایک اقلیتی بنچ کا فیصلہ ہے پوری بنچ کا متفقہ فیصلہ نہیں ہے, لیکن اس فیصلہ کی آڑ میں مودی سرکار کو مسلمانوں کی تذلیل کرنے کا موقع ہاتھ آگیا اور اس نے طلاق ثلاثہ کو اتنا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کردیا گویا اس کے علاوہ مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا مسئلہ ہے ہی نہیں اور اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو مسلم قوم ایک ترقی یافتہ قوم بن جائے گی۔

Published: undefined

درحقیقت پروپیگنڈہ خوب کیا گیا لیکن سچائی یہ ہے کہ مودی سرکارکی منشاء مسلم خواتین کی بہتری یا انہیں فائدہ پہنچانے کی بالکل نہیں ہے بلکہ اس کا تو واحد مقصد قانون سازی کرکے مسلم قوم کو یہ باورکرانا ہے کہ اب ملک میں ان کی کوئی آئینی وقانونی حیثیت نہیں رہ گئی ہے اور اب انہیں سرکار کے رحم وکرم پر ہی زندگی گزارنی ہوگی، جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے اس کو لے کر مسلمانوں میں صدیوں سے اختلاف ہے، حنفی مسلک کے ماننے والے جہاں طلاق ثلاثہ کو جائز سمجھتے ہیں وہیں مسلمانوں کے دوسرے مسالک میں طلاق کا ضابطہ الگ ہے، تاہم ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت حنفی ہے اور شاید اسی لئے مودی سرکارنے طلاق ثلاثہ کو اپنا نشانہ بنایا کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کی اکثریت اس سے متاثرہوسکتی ہے۔

Published: undefined

ان سب کے درمیان یہ افسوسناک سچائی بہرحال موجود ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی بے حسی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ہی بی جے پی کی راہ آسان ہوئی ہے اب اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے دلیل دی جا رہی ہے کہ سرکار نے ہمیں اندھیرے میں رکھ کر دھوکے سے یہ بل پاس کرالیا ہے، یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ سرکارنے آرٹی آئی ایکٹ ترمیمی بل اور طلاق بل سمیت چھ دیگر بلوں کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا وعدہ کیا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا، کیا اپوزیشن کی اس طرح کی مضحکہ خیز دلیلوں کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

Published: undefined

قابل غور ہے کہ اس سے پہلے آرٹی آئی ترمیمی بل راجیہ سبھا سے سرکار منظور کروا چکی تھی (اور اس وقت جب ہم یہ سطورقلم بند کر رہے ہیں مخصوص فرد کو دہشت گرد قرار دینے والا ترمیمی بل بھی راجیہ سبھا سے منظورہوچکا ہے)یہ تب ہورہا ہے جب این ڈی اے راجیہ سبھا میں اقلیت میں ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ سرکارنے اپوزیشن کو دھوکہ دیا ہے تو ایک بڑا سوال یہ اٹھتاہے کہ جب آرٹی آئی ترمیمی بل پاس ہوچکا تھا تو اس کے بعد ان سیکولر پارٹیوں نے احتیاط کیوں نہیں برتی؟ حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ اس بار سرکار کسی بھی طرح طلاق بل پاس کرانا چاہتی ہے، طلاق بل کی منظوری درحقیقت ان سیکولر پارٹیوں کی اخلاقی شکست کا مظہر ہے جنہوں نے واک آوٹ کیا یا پھر ایوان سے غیر حاضر رہ کر سرکار کی راہ آسان کردی بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ ایسا کرکے انہوں نے درپردہ ’بی جے پی کی مدد کی ہے۔

Published: undefined

جو کچھ ہوا اس کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کچھ کم ذمہ دارنہیں ہے طلاق ثلاثہ کا معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا تھا اس وقت بورڈ کو جس دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اس نے نہیں کیا، اس کی طرف شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی اپنے ایک بیان میں اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران بورڈ کے ذمہ داران کو یہ موقع میسر آیا تھا کہ وہ اس حوالہ سے کوئی واضح موقف اختیارکرتے طلاق حسن اور طلاق احسن کو اپنے موقف کا جز یا کل بناتے لیکن وہ طلاق ثلاثہ پر ہی اڑے رہے انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا حنفی مسلک ہی اسلامی فقہ کی آخری تشریح ہے اور کیا طلاق کے حوالہ سے دیگر مسالک کا موقف غیر اسلامی ہے؟ آج کے تناظر میں یہ سوال بہت اہم ہے، درحقیقت اس مسئلہ کو لیکر جو قانونی لڑائی شروع ہوئی بورڈ نے اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا آدھی ادھوری تیاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی گئی حالانکہ بورڈ کا قیام مسلمانوں کو آئین میں دیئے گئے مذہبی حقوق کے تحفظ اور ان امور میں سرکار کی بے جا مداخلت کو روکنے کے لئے عمل میں آیا تھا مگر ہمیں افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ بورڈ ان امور کا تحفظ کرنے میں پوری طرح ناکام رہا ہے۔

Published: undefined

انسانی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی اور ترقی کرتی ہیں جو حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی اور نشانے طے کرتی ہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ یہ دعویٰ تو کرتا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے احساسات وجذبات کی بھرپور نمائندگی کرنے سے پہلو تہی اختیار کرتا رہا ہے، حالات کا تقاضا تھا کہ بورڈ کے ذمہ داران تمام مسالک کے علماء کے ساتھ مل بیٹھ کر افہام وتفہیم کے ذریعہ کوئی درمیانی اور معقول راستہ نکالتے آپس میں تال میل قائم کرنے کی کوشش کی جاتی اور اس حوالہ سے کسی قدر دور اندیشی کا مظاہرہ کیا جاتا حالات اور موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اگر بورڈ کے ذمہ داران اپنا اڑیل رویہ ترک کرکے اعتدال اور اجتہاد کا راستہ اختیارکرتے تو مسلمانوں کو آج جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے انہیں بچایا جاسکتا تھا۔

Published: undefined

مودی سرکار نے تو آتے ہی اپنے خطرناک ارادوں کا اظہار کر دیا تھا اور اس تعلق سے پوری منصوبہ بندی بھی کرلی تھی اب اگر اس کے بعد بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ خواب خرگوش میں مبتلا رہا تو اصل قصوروار کون ہوا؟ سرکار اپوزیشن پارٹیاں یا خود بورڈ؟ بورڈ نے بل کی منظوری کے فوراً بعد اپنے ردعمل میں کہا کہ اس بل کو پاس نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن سیاسی پارٹیوں کی ناعاقبت اندیشی اور دوغلے پن نے اس بل کو پاس کرانے میں حکومت کی مدد کی، لیکن اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا اعتراف نہیں کیا، ہماری تنزلی اور تباہی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم دوسروں پر انگلی تو اٹھاتے ہیں مگرخود اپنا احتساب کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے تازہ اطلاعات ہیں کہ بورڈ ایک بار پھر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے تیاری کر رہا ہے اسے اپنی موجودگی کا احساس کرانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے مگر یہ مت بھولئے کہ سانپ گزرچکا ہے اب لکیر پیٹنے سے کچھ نہیں حاصل ہونے والا، اب یہ سوال بھی سامنے آکھڑا ہوا ہے کہ طلاق بل کی منظوری کے بعد کیا مسلمانوں کے لئے کسی پرسنل لاء بورڈ کی ضرورت رہ گئی ہے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined