ایک کہاوت ہے کہ جھوٹ اتنے زور سے بولو کہ سچ مان لیا جائے۔ کچھ اسی ڈگر پرکام کرتے ہوئے بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے لوگ ایسے ایسے جھوٹے اورغلط پروپیگنڈے کر رہے ہیں جو عوام کے گلے سے نہیں اتر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اترپردیش کے الہ آباد (اب پریاگ راج) میں کمبھ میلہ کی تیاریوں کے حوالے سے واہ واہی لوٹنے کے لئے بھگوا بریگیڈ نے دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع حج بیت اللہ کے موقع پرمنیٰ (خیموں کاشہر) کی کچھ تصاویر چوری کیں جس میں قابل دید برقی روشنیوں کے درمیان تا حدنظر خیمے روحانی منظرپیش کررہے تھے، اسے کمبھ کی تیاریوں کی ایک جھلک بتاکر بی جے پی اور اس کی حواری جماعتوں کے سوشل میڈیا اکاونٹ کے ذریعہ خوب شیئر کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی نہیں ان شاندار تصاویر کو اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی والے ہندتوا کے’برانڈامبیسڈر‘ یوگی آدتیہ ناتھ کی کارکردگی کے طور پرپیش کیا جا رہا تھا، مگرجھوٹ توجھوٹ ہی ہوتا ہے، سوشل میڈیا کے عادی لوگوں نے فوراً اسے پکڑ لیا اور جب پروپیگنڈہ بے نقاب ہوا تو ان تصاویر کو ہٹا دیا گیا۔
اسی طرح کچھ ماہ قبل نریندرمودی حکومت نے اپنے اب تک کے دورحکومت میں مبینہ طور پر جس تیزی سے سڑکوں کے لئے کام کیا، اسے دکھانے کے لئے بی جے پی نے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر پوسٹ کی تھیں جنہیں بعد میں غلط پایا گیا تھا۔ بی جے پی نے مغربی اترپردیش میں شروع ہوئے ویسٹرن پییریفیرل ایکسپریس وے کے حوالے سے وزیراعظم نریندرمودی کا گن گان کروانے کے لئے سوشل میڈیا پرکچھ تصاویر پوسٹ کی تھیں جن میں ایک آگرہ۔لکھنوایکسپریس وے کی تھی جس پرہندوستانی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے لینڈنگ اور پرواز کی تھی، اسے اترپردیش میں اکھلیش یادو کی قیادت والی سماجوادی پارٹی کے دور حکومت میں تیار کیا گیا تھا، جب کہ دوسری تصویر دہلی۔میرٹھ ایکسپریس وے کی تھی۔ ان تصاویر کی بنیاد پر ویسٹرن پییریفیرل ایکسپریس وے کا کام تیزی سے پورا کرنے کاغلط دعویٰ پیش کر کے بی جے پی حکومت کی کارکردگی کے طور پر پیش کیا گیا اور وزیراعظم نریندرمودی کی جے جے کار کروائی جارہی تھی۔ جب تصاویرکی حقیقت کا پتہ چلا توجھوٹ کی دکان چلانے اور مارکیٹنگ کے ماہر طبقے کی خوب فضیحت ہوئی۔ ان واقعات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ جھوٹ کی دکانوں کا شٹرگر جائے گا اور مارکیٹنگ کا ماہرطبقہ مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے آئندہ ایسی حرکتیں نہیں کرے گا مگر اب گنگا صفائی کے نام پراس دریا سے عقیدت رکھنے والے سیدھے سادھے لوگوں کودھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Published: undefined
جنوبی ہند کے کئی سوشل میڈیا گروپوں میں اس دعوے کے ساتھ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے چند سالوں میں گنگا ندی کی صفائی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں، تصاویر کا ایک جوڑا شیئرکیا جا رہا ہے۔ کچھ سوشل میڈیا گروپوں میں ’پانچ سال کاچینلج‘ کے ساتھ توکچھ میں’10سال کاچیلنج‘ کے ساتھ ان تصاویر کو شیئر کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ کانگریس کی حکومت میں گنگا ندی کی حالت کافی خراب تھی جس میں بی جے پی حکومت نے تیزی سے بہتری کی ہے۔ تمل ناڈو کی بی جے پی یونٹ میں جنرل سکریٹری ونتھی سرینواسن نے بھی ان تصاویر کو ٹوئٹ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ کانگریس حکومت کے وقت (2014) اور اب بی جے پی حکومت کے دوران (2019) گنگاکی حالت میں ہوئے بدلاؤ کو دیکھیے۔
جنوبی ہند کے کچھ دیگر بی جے پی لیڈروں نے بھی ان تصویروں کو اپنے سرکاری سوشل میڈیا پیج پر شیئر کیا ہے۔ ’دی فرسٹریٹیڈ انڈین‘ اور ’رائٹ لاگ ڈاٹ ان‘ جیسے دائیں بازو رجحان والے سوشل میڈیا گروپوں نے بھی ان تصاویر کو شیئر کیا اور ہزاروں لوگ ان گروپوں سے یہ تصاویرشیئر کرچکے ہیں۔کنڑ زبان کے فیس بک گروپ ’بی جے پی فار2019۔ مودی موتوم‘ نے بھی انہیں تصاویرکو پوسٹ کیا اور لکھا کہ کتنا فرق آگیا ہے، آپ خود دیکھ لیجیے۔ یہ بدلاؤ کافی ہے یہ کہنے کے لئے۔ ایک بار پھرمودی سرکار۔
مگرجب سوشل میڈیا صارفین نے دماغ لگایا توپتہ چلا کہ وزیراعظم نریندرمودی کے پارلیمانی حلقہ اور ہندووں کے لئے مقدس مقام رکھنے والے وارانسی شہر کی جس تصویر کو’گنگا کی صفائی کا ثبوت‘ بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا، وہ سراسرغلط اورجھوٹ ہے، جانچ کرنے پرپتہ چلا کہ یہ تصاویر2009 اور2019 کی نہیں ہیں۔ پہلی تصویرکے بارے میں سرچ کرنے پر پتہ چلا کہ جس وائرل تصویر کو سال 2009 کی بتایا جا رہا ہے، اسے سال 2015 سے 2018 کے درمیان ایک مشہور انگریزی میگزین نے ’فائل فوٹو‘ کے طور پرکئی بار استعمال کیا ہے لیکن یہ تصویرکب لی گئی تھیں؟ اس بارے میں پتہ چلا کہ سال 2011 کے وسط میں غیرملکی میڈیا کی ایک ٹیم گنگا کے حالات پر فوٹو اسٹوری کرنے وارانسی گئی تھی۔ یہ اسی سیریزکی فوٹو ہے جو بعد میں بھی کئی کہانیوں میں ’فائل تصویر‘ کے طور پر استعمال کی جاچکی ہیں۔ سال 2011 میں مرکزمیں کانگریس کی اور اترپردیش میں بی ایس پی کی حکومت تھی۔
دوسری تصویرکے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ یہ وہ تصویر ہے جس کی بنیاد پر بی جے پی لیڈروں نے گنگا ندی کی حالت بدلنے کادعویٰ کیا ہے اور اسے سال 2019 کا بتایا ہے۔ گوگل سرچ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تصویر وکی پیڈیا سے اٹھائی گئی ہے۔ شمالی یورپ کے ایک وکی پیڈیا پیج پر یہ تصویرلگی ہوئی ہے اور اس پیج پراترپردیش کے وارانسی شہرکے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ وکی پیڈیا نے اس صفحے پر ایک فوٹو ویب سائٹ کے لئے غیرملکی فوٹو گرافرکے ذریعہ کھینچی گئی اسی تصویرکواستعمال کیا ہے جو 2009 میں لی گئی تھی۔ یاد رہے کہ سال 2009میں بھی مرکزمیں کانگریس کی ہی حکومت تھی اور صوبے کی کمان بی ایس پی لیڈر مایاوتی کے ہاتھ میں تھی۔ یعنی جن تصاویرکی بنیاد پر بی جے پی لیڈر گنگا کی صفائی کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ دونوں ہی تصاویر کانگریس کے دورحکومت میں لی گئی تھیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال ہی گنگا کی صفائی کے لئے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانے والی ایک پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ گنگا صفائی کے لئے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے قدم ناکافی ہیں۔ وہیں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) بھی گنگا کی صفائی کو لے کرحکومت کوپھٹکار لگا چکا ہے۔ باوجود اس کے حکمراں طبقہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے اور آئے دن اسے شرمسار ہونا پڑتا ہے۔
غور طلب ہے کہ آبی وسائل اور گنگا تحفظ کے وزیر مملکت ڈاکٹرستیہ پال سنگھ نے جولائی 2018 میں راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سال2014 سے جون 2018 تک گنگا ندی کی صفائی کے لئے 3,867 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خرچ کی جاچکی ہے۔ لیکن سال 2018 میں ایک آرٹی آئی میں یہ سامنے آیا کہ مودی حکومت کے پاس کوئی ایسے اعداد و شمار نہیں ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ اب تک گنگا کی کتنی صفائی ہوئی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس حکومت کے 5 سال پورے ہو رہے ہیں مگرکوئی ایسا کام سامنے نہیں آیا ہے جس کا سینہ ٹھونک کر پیش رو حکومتوں سے موازنہ کیا جاسکے۔ اسی لئے بھگوا بریگیڈ کبھی گئورکشا تو کبھی تین طلاق کے مسئلے کو زور و شور سے اٹھاکرعوامی مسائل کودبایا جاتا رہا ہے۔ اب جبکہ عام انتخابات سر پر ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت کی ناکامیوں کی لمبی فہرست پیش کرکے عوام کو ان کے’ٹھگے جانے‘ کا احساس کرا رہی ہیں تو اپنی کھال بچانے کے لئے’مٹھائی کی دکان پردادا جی کا فاتحہ‘ والی کہاوت پرعمل کرتے ہوئے بی جے پی اوراس کی ہمنوا تنظیموں کے لوگ ایسے ایسے دعوے کر رہے ہیں کہ عوام سننے تک کو تیارنہیں ہے۔ اسی وجہ سے سرخیوں میں رہنے کے لئے ہرطرح کی ترکیبیں آزمائی جارہی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز