بات صرف اتنی سی تھی کہ ملک میں ابھی تک سو کروڑ لوگوں کو کورونا کا ٹیکہ لگایا جاچکا ہے جس میں سے 51 فیصد لوگوں کو پہلی خوراک اور 21 فیصد لوگوں کو دونوں خوراک دی جاچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس موقع پر ان حاصل شدہ مارکس کو 100 میں تبدیل کرنے کی ازسرِ نومنصوبہ بندی کی جاتی، اس ضمن میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کی مزید بہتر حکمت عملی بنائی جاتی، لیکن اسے ایک حصولیابی قرار دے کر خود اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپائی گئی اور دھوم دھام سے سو کروڑ ویکسین دیئے جانے کا جشن منایا گیا۔ اس جشن میں لفظ ’مفت‘ کو خاص طور سے نمایاں کیا گیا، جبکہ ملک میں ابھی تک جتنے بھی ٹیکے لگے ہیں وہ تمام کے تمام مفت ہی ہوا کرتے ہیں۔ جشن کے دوران یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ وہ ممالک بھی ہمارے اس جشن کو دیکھیں گے جو اس سے قبل کورونا سے ہوئی اموات کو چھپانے کا ہم پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور جن میں ہمارے مخالف ممالک کے ساتھ کئی دوست ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ آبادی کے لحاظ سے ٹیکہ کاری کی ہماری یہ حصولیابی سپریم کورٹ میں دائر ہمارے اس حلف نامے کی پابندی سے ابھی بھی بہت دور ہے جس میں اس سال کے آخر تک ملک کی پوری بالغ آبادی کو ٹیکہ لگا دیئے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
Published: undefined
22؍اکتوبر جس دن ایک کروڑ ویکسی نیشن کا یہ عدد پورا ہوا ٹی وی نیوز چینلوں پر جس طرح اس کی ستائش ہوئی اور پردھان سیوک کے شکریے کی جس طرح باڑھ آئی، ملک کے تمام مسائل اس میں تنکے کی مانند بہہ گئے۔ سوکروڑ ویکسین پر ’تھینک یو مودی جی!‘ کے شور شرابے میں ان ساڑھے 6 لاکھ لوگوں کی موتیں بھی دب گئیں جو اسپتالوں، ادویات و آکسیجن کی کمی کے سبب اس دنیا سے چلے گئے اور جن کی فراہمی کی تمام تر ذمہ درای پردھان سیوک کی تھی۔ لیکن اپواد کو اوسر اور اوسر کو اتسو میں تبدیل کرنے کا جو جنون ہمارے پردھان سیوک کے سر پر سوار ہوا ہے اس نے عوام کی زندگیوں سے جڑی اس ناگزیز ضرورت کو بھی بھارت بھاگیہ ودھاتا بننے کی ان کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے چار لاکھ اموات (حکومت کے بقول) پر اور جبکہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، کیا کسی حصولیابی کا جشن منایا جاسکتا ہے؟ کیا ایسی صورت میں فتح کے شادیانے بجائے جاسکتے ہیں جب کہ جنگ چل رہی ہو؟ لیکن جس ملک میں جی ایس ٹی جیسے ظالمانہ ٹیکس کے قانون کے اطلاق کو بھی جشن بنا دیا جائے، وہاں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔
Published: undefined
اب ذرا ہم سوکروڑ لوگوں کو ٹیکہ دیئے جانے اور پوری دنیا میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخریہ دعوے پر ایک نظرڈال لیتے ہیں۔ کہا گیا کہ ہم نے سو کروڑ لوگوں کو کورونا کا ٹیکہ لگا دیا ہے جن میں 71.32 کروڑ لوگوں کو پہلی خوراک اور 29.8 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو دوسری خوراک دیدی گئی اور اس طرح کل ملاکر سو کروڑ سے زائد خوارک ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی ورلڈ میٹر کے حساب سے تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے اگر دیئے جانے والے ڈوز کا حساب لگایا جائے تو 21؍اکتوبر کی شام تک (جشن کی شروعات سے قبل تک) محض 21 فیصد لوگوں کو ہی دونوں خوراک دی گئی ہیں جبکہ 51 فیصد لوگوں کو صرف پہلی خوراک دی گئی۔ یعنی کہ ملک کی آبادی کے 79 فیصد حصے کو ابھی دوسری ڈوز دی جانی باقی ہے اور 49 فیصد لوگوں کو ابھی تک ایک بھی خوراک نہیں دی گئی ہے۔ جبکہ دنیا میں دو ہی ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی سو کروڑ یعنی کہ ایک ارب سے زائد ہے، پہلا چین اور دوسرا ہندوستان۔ چین کی آبادی تقریباً ایک ارب 45 کروڑ ہے اور وہاں 16؍ستمبر2021 کو ہی سوکروڑ لوگوں کو سبھی ڈوز لگ چکے ہیں۔ چین میں اب تک 223 کروڑ ویکسین کی خوراک دی جاچکی ہے اور وہاں کی آبادی کا 71 فیصد حصہ پوری طرح ویکسی نیٹیڈ ہوچکا ہے۔
Published: undefined
ویکسی نیشن کی ریس میں امریکہ کا بھی شمار کیا گیا ہے۔ لیکن امریکہ کو ہندوستان کے مقابل اس لئے بھی نہیں لایا جاسکتا کیونکہ امریکہ کی آبادی محض 33 کروڑ ہی ہے اور اگرامریکہ اپنی آبادی کے تمام لوگوں کو چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سبھی کو ویکسین لگا دے تو بھی یہ تعداد 66 کروڑ ہی ہوگی۔ اس لئے ہندوستان کا تقابل صرف چین سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اوپر کے پیراگراف میں ہم نے چین میں ویکسین دیئے جانے کی رفتار دیکھ لی جو یقینی طور پر ہم سے بہت آگے ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے سوکروڑ ویکسین دے کر دنیا میں اول مقام حاصل کرلیا؟ خیر! ہم اس دعوے کو پردھان سیوک کی ’مہیمامنڈل‘ کرنے کی، گودی میڈیا کے چند اینکر اور بی جے پی کے کچھ لیڈران کی ہڑبڑاہٹ سمجھ کر پردھان سیوک سے بس یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ جب ریس میں دو ہی لوگ ہوں تو ظاہر ہے ایک جیتے گا اور ایک ہارے گا۔ اول، دوئم، سوئم کا مقام حاصل کرنے کے لئے مقابلے میں تین سے زائد لوگوں کو ہونا ضروری ہے۔ اب جب چین اور ہندوستان ہی مقابلے میں ہیں تو اب یا تو چین آگے جائے گا یا ہندوستان۔ لیکن مودی جی! بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب آپ پورے ملک سے ’تھینک یومودی جی!‘ کہلوا رہے تھے، چین نے ہمیں پٹخنی دیدی۔ ہندوستان کی آبادی چین سے تقریباً پانچ کروڑ کم ہے، لیکن ہم چین سے آدھے پر ہیں۔ اگر دنیا کی پوری آبادی کے تناظر میں بات کریں تو دنیا کی آبادی سات سو کروڑ ہے اور اس حساب سے ہمارا پاسنگ مارکس 17؍فیصد ہوتا ہے اور ابھی ہم ہیں 15؍پر۔
Published: undefined
سوکروڑ ویکسین کے جشن کے دوران جو اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے ان میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے ملک میں اترپردیش وہ واحد ریاست ہے جو دیگر ریاستوں سے آگے ہے اور جہاں 12.3 کروڑ ٹیکے لگائے گئے۔ یہاں پر بھی گھپلہ کردیا گیا۔ معلوم نہیں کون سی بھانگ پی کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اترپردیش کی آبادی 23 کروڑ ہے جہاں ابھی تک 53 فیصد لوگوں کو ویکسین دی گئی ہے۔ اس میں پہلی اور دوسری خوراک لینے والے سبھی شامل ہیں۔ اس حساب سے اترپردیش میں تقریباً 20.5 لوگوں کو ویکسین دی جاچکی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مہاراشٹر کی آبادی 12؍کروڑ ہے جہاں پر تقریباً 10؍ کروڑ لوگوں کو پہلے اور دوسرے سب ملا کر ٹیکے لگائے جاچکے ہیں جو کہ 75 فیصد ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال مغربی بنگال کا ہے جہاں کی آبادی 9 کروڑ ہے اور وہاں پر تقریباً 7کروڑ لوگوں کو ٹیکے لگائے جاچکے ہیں اور یہ تناسب بھی75 فیصد ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ کہا جانا کہ اترپردیش ہی ملک میں ویکسی نیشن کے معاملے میں سب سے آگے ہے؟ گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سچائی یہ ہے کہ اترپردیش ملک بھر میں 15؍ویں نمبر پر ہے۔ اب اگر ہم یہاں مرکز کی جانب سے ریاستوں کو دی جانے والی ویکسین کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرکز کی جانب سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کو آبادی کے تناسب سے زیادہ ویکسین دی گئی جبکہ غیر بی جے پی ریاستوں کے ساتھ جانبداری برتی گئی۔ اس ضمن میں 8؍اپریل 2021 کو مہاراشٹر کے وزیرصحت راجیش ٹوپے کے ایک بیان پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوگا کہ جس میں انہوں نے مرکز پر اترپردیش، گجرات اور ہریانہ کو مہاراشٹر سے زیادہ ویکسین دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز