یہ واقعہ ہے کہ جن علمائے اسلام نے آزادیٔ وطن کی خاطر غیر معمولی قربانیاں پیش کیں ان میں علمائے صادقپور کا نام سنہری حروف سے تحریر کیے جانے کے لائق ہے۔ اس خانوادۂ صادقپور کے ایک عظیم فرزند حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک کتاب ان دنوں حلقہ قارئین میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کتاب کا نام ’مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات‘ ہے، اور اس کے مصنف انظار احمد صادق ہیں جنھیں مولانا عبدالسمیع صادق پوری کے شاگرد اور قلمی معاون کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ مصنف نے ان قیمتی لمحات کو غنیمت تصور کرتے ہوئے ایک عالم باعمل کی زندگی کے ایسے متعدد واقعات قلمبند کیے ہیں جو موجودہ نسل کے لیے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ چند واقعات یہاں پیش کیے جاتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنے بزرگوں کے کارنامے نیز ان کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں۔
Published: undefined
مصنف نے جس خانوادۂ صادقپور کے مثالی فرزند مولانا عبدالسمیع صادق پوریؒ کی سوانح حیات بیان کی ہے، اس گھرانے نے ملک کے لیے ایسی بے شمار قربانیاں پیش کی ہیں کہ جس کی دوسری مثال تاریخ ہند میں نہیں ملتی۔ اس ضمن میں ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:
’’اگر سارے ملک کے حریت پسندوں کی آزادیٔ وطن کے لیے خدمات ایک پلڑے میں ڈال دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں صرف علمائے صادقپور کی خدمات ڈال دی جائیں تو صادق پوری علماء کا پلڑا بھاری ہوگا۔ تحریک مجاہدین صادق پوری خاندان کے دم قدم سے ڈیڑھ صدی تک انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہی، جائیداد کی قرقیوں اور مال و متاع کی ضبطی کے مرحلے بھی اس عظیم خاندان کو پیش آئے۔‘‘ (مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات، صفحہ 55)
Published: undefined
اس قدر عظیم قربانیوں کے بعد بھی خاندان صادقپور کی خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’تعصب کی عینک لگا کر آزادی کی تاریخ لکھنے والوں نے انصاف سے کام نہیں لیا اور جس رتبے کا حامل یہ خاندان تھا، اسے وہ رتبہ نہ دے سکے... بہار کی راجدھانی پٹنہ کے گنگا پل کے مشرق مینا بازار کے پاس واقع محلہ کا نام ’صادقپور‘ ہے، جو کبھی مجاہدین کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی ساری نشانیاں مٹ چکی ہیں۔ البتہ مجاہدین کے دور کی ایک جامع مسجد اب بھی موجود ہے جو ہمیشہ دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہتی ہے۔‘‘ (مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات، صفحہ 49)
Published: undefined
اس تاریخی گھرانے میں مولانا عبدالسمیع جعفری کی پیدائش ہوئی۔ یہ قانون فطرت ہے کہ جنھیں بلندیوں کا سفر مطلوب ہوتا ہے، انھیں مصائب و مشکلات کی خاردار وادیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مولانا کی زندگی بھی کچھ اسی انداز میں بسر ہوئی۔ ان کی پیدائش کے محض ایک ہفتہ بعد ہی والدہ محترمہ داغ مفارقت دے گئیں۔ والد گرامی مولانا عبدالخبیر جعفریؒ کے دوست کی اہلیہ نے انھیں دودھ پلایا۔
Published: undefined
اپنے بزرگوں کے قائم کردہ مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ سے فراغ کے بعد مشہور دینی ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ یہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی اور رابع حسنی ندوی جیسی عبقری شخصیات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے بعد چند سال اپنے مادر علمی مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ بعد ازاں والد محترم کی اجازت سے سوئے حرم روانہ ہوئے۔ دیارِ حرم سے ہی مولانا عبدالسمیع صادق پوری کی علمی رفعتوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغ کے بعد انھیں حکومت سعودی عربیہ نے اپنا مذہبی سفیر بنا کر نائیجیریا بھیج دیا۔ وہاں اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے کے بعد یہ واپس سعودی عرب لوٹ آئے۔ نائیجیریا سے مکہ معظمہ لوٹنے کے بعد ان کا تقرر جامعہ ام القریٰ کی مرکزی لائبریری میں ہو گیا۔ مصنف کے بیان کے مطابق جامعہ ام القریٰ کی ملازمت کا زمانہ مولانا کی زندگی کا سنہری دور تھا۔
’’بلادِ توحید میں صبح و شام گزرتی تھی، خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا، جتنی بار خانہ کعبہ پر نگاہ پڑتی تھی ایمان میں تازگی پیدا ہو جاتی تھی۔‘‘ (مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات، صفحہ 116)
Published: undefined
لیکن یہ سنہری دور جلد ہی اختتام کو پہنچ گیا۔ جامعہ ام القریٰ کی ملازمت کا آٹھواں سال تھا کہ ان کے پاس امارت اور جامعہ اصلاحیہ سلفیہ پٹنہ کی جانب سے خطوط کا تانتا لگ گیا۔ دراصل آپ کے والد محترم عبدالخبیر جعفری کی وفات کے بعد امارت اور جامعہ خود کو یتیم محسوس کرنے لگی تھی۔ ان حالات میں آپ نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جامعہ ام القریٰ کی جنت نما زندگی کو خیر باد کہہ دیا اور وطن تشریف لے آئے۔
Published: undefined
مدرسہ اصلاح المسلمین آپ کے بزرگوں کی یادگار اور آپ کی مادری درسگاہ تھی۔ آپ کی دور امارت میں یہ ادارہ از سر نو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے لگا۔ امارت اور جامعہ کی کامیابی سے حوصلہ پا کر مولانا محترم نے ’مریم اسپتال‘ کا قیام عمل میں لائے۔ بقول مصنف:
’’مریم اسپتال کو وجود میں لانے کا بڑا مقصد ملت کے غربا و مساکین کی خاطر خواہ رعایت کے ساتھ مناسب علاج کرنا تھا۔ بفضلہٖ تعالیٰ مولانا اپنے اس نیک ارادے میں سو فیصد کامیاب رہے۔‘‘ (مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات، صفحہ 176)
Published: undefined
آپ قوم و ملت کی دنیوی و اخروی فلاح و بہبودی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے۔ امیر امارت کی حیثیت سے آپ نے غربا، مساکین، محتاجوں، یتیموں اور بیواؤں کی جس انداز سے معاونت فرمائی وہ حد درجہ قابل رشک ہے۔ وہ اکثر برادران وطن تک بھی اسلام کا پیغام امن پہنچانے کی سعی پیہم کرتے۔ مولانا کے ذریعہ کیے گئے دینی و دعوتی اسفار کی تعداد بے شمار ہے۔ آپ کے درس قرآن کا انداز اس قدر دلنشیں تھا کہ لوگ اس میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے میر شکار ٹولہ عالم گنج پٹنہ کی مرکزی جامع مسجد میں آتے۔
Published: undefined
اخلاق و کردار اور ضبط نفس کے معاملے میں آپ کی شخصیت مثالی تھی۔ مہمان نوازی کے معاملے میں آپ اسلاف کی روایات کے امین تھے۔ بقول شیخ جواد اعجاز تیمی: ’’ان کی مہمان نوازی کا منظر اس وقت قابل دید ہوتا جب جامعہ میں عیدالفطر کے بعد طلبہ کے داخلے کا وقت آتا۔ اپنے بچوں کو جامعہ میں داخلہ دلوانے کے لیے آنے والے حضرات کو آپ خصوصی مہمان کا درجہ دیتے اور ان کی ضیافت کا خصوصی انتظام کرتے۔‘‘ (مولانا عبدالسمیع جعفری صادق پوری: حیات و خدمات، صفحہ 26)
Published: undefined
المختصر یہ کہ مولانا عبدالسمید صادق پوری ملت اسلامیہ ہند کے لیے شجرہائے سایہ دار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی عبقری شخصیت اور عالمانہ زندگی کے مختلف گوشوں سے قاری کو روشناس کراتی اس کتاب کی اشاعت ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں کے تاریخی کردار کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہر چہار جانب ہو رہی ہیں۔ اس ارمغانِ علمی کی اشاعت پر میں انظار احمد صادق کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined