گونگے نکل پڑے ہیں زباں کی تلاش میں
سرکار کے خلاف یہ سازش تو دیکھئے
ان کی اپیل ہے کہ انھیں ہم مدد کریں
چاقو کی پسلیوں سے گزارش تو دیکھئے
(دشینت کمار)
Published: undefined
اڈانی گیٹ کو لے کر مودی حکومت کی مشکلات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مودی اور اڈ انی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرے کا وجود زیادہ دنوں چل نہیں سکتا اس،لئے مودی حکومت اور اور اس کے تحت پورا نظام اڈ انی کے بچاؤ میں اتر آیا ہے اور کمال بےشرمی سے عوام کی گاڑھی کمائی کے اربوں روپیہ ڈوب جانے اور تاریخ کے بدترین گھپلے کو راشٹرواد کی چادر میں لپیٹ کر اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اڈانی گروپ نے جو کچھ کیا جس طرح ماریشس اور دوسرے کیریبین ممالک میں فرضی (شیل) کمپنیاں قائم کر کے مختلف بینکوں اور بیمہ کارپوریشن کو لوٹا وہ سب کچھ سامنے آ رہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت بنا چوں چرا مشترکہ پارلیمانی کیمٹی سے جانچ کے اپوزیشن کے مطالبہ کو تسلیم کر لیتی کیونکہ بطور حزب اختلاف وہ ہر ایسے واقعات کی جانچ کے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل کرنے اور نہ مانے جانے پر پارلیمنٹ ہنگامہ کرتی رہی ہے یہاں تک کہ 2 جی معاملہ پر تو اس نے پورا ایک اجلاس ہی ہنگامہ کی نذر کر دیا تھا۔ یہی نہیں جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس نے وہاں بھی کھیل کرنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ میں کہا کہ وہ بند لفافہ میں جانچ میں شامل کئے گئے لوگوں کے نام عدالت کو دیگی اسے امید تھی کی رفائیل کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ اسکی بات مان لیگا لیکن اس بار معاملہ گوگوئی جیسے چیف جسٹس کے پاس نہیں بلکہ جسٹس چندرا چوڑ کے پاس ہے انہوں اس سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت جانچ میں شامل کے جانے والے افراد اور افسروں کے نام عوامی طور سے ظاہر کرے کیونکہ یہ اربوں روپیہ کی لوٹ کا معاملہ ہے اسکی جانچ میں شفافیت ہونی چاہئے اور عوام کو ان لوگوں کے نام معلوم ہونے چاہیں جو جانچ کرینگے۔
Published: undefined
دوسری طرف بی بی سی نے گجرات فساد کے دوران مودی جی کے کردار پر ایک ڈاکومنٹری فلم جاری کر دی حالانکہ اس فلم میں کوئی نئی بات نہیں تھی دنیا اس سے واقف تھی یہاں تک کہ بطور وزیر اعلی مودی کے امریکہ آمد پر پابندی بھی لگی تجی جو انکے وزیر اعظم بننے کے بعد وقتی طور سے ہٹی ہے اور ہو سکتا ہے جب وہ اس کرسی سے ہٹیں تو یہ پابندی پھر لگ جائے۔ دوسرے یہ ڈاکومنٹری فلم ہے جو دستاویزی ثبوتوں پر مبنی ہوتی ہے وویک آگنی ہوتری کی کشمیر فائل کی طرح تخیلات پر مبنی نہیں ہے پھر بھی مودی حکومت نے اسکے دکھانے پر پابندی لگا دی وہ یہ بھل گئی کہ آج کے اس انٹیر نیٹ کے دور میں ایسی کوئی پابندی کامیاب نہیں ہو سکتی اور جو چاہے یو ٹیوب پر آسانی سے دیکھ سکتا ہے پھر بھی حکموت نے اپنی طاقت کا احساس کرانے کے لئے یہ غیر جمہوری قدم اٹھایا اور اپنی کامیاب دیرینہ روش کے مطابق اسے بھی ہندستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیا۔ حکومت یہیں پر نہیں رکی اس نے بی بی سی کے دہلی اور بنگلورکے دفتروں پر انکم ٹیکس کے چھاپے بھی ڈالنے شروع کر دئے حالانکہ انکم ٹیکس محکمہ اسے چھاپے نہیں بلکہ سروے کہہ رہا ہے لیکن سروے کے لئے افسروں کی فوج اور پولیس کے دستے لے جانے صحافیوں کے موبائل لیپ ٹاپ کمپیوٹر وغیرہ ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی دوسرے سروے بی بی سی کے ذمہ اروں کو دستاویزوں سمیت اپنے دفتر پر طلب کر کے بھی ان دستاویزوں کی جانچ کی جا سکتی تھی۔ حکومت ہکمرتران جماعت اسکے چھوٹے بڑے کارکن اس کی رثواۓ زمانہ ٹرول برگیڈ تو درکنار بےشرمی کی حدیں پر کرتے ہوے ہندستانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھی اپنے اوپر ہونے والے اس حملہ کو حق بجانب قرار دے رہا ہے یہی وجہ ہے کی عالمی رینکنگ میں ہندستانی میڈیا نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
Published: undefined
اڈانی گروپ کی کارستانیوں کو لے کر شارٹ سیلر ہںڈن نبرگ کی رپورٹ کے بعد عالمی ہلچل کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے امریکی ارب پتی اور دنیا کے جانے مانے مخیر جارج سورس نے کہا کہ اڈانی گروپ کے سامراج میں اتھل پتھل نے سرمایہ کاری کے حساب سے ہندستان پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے لیکن یہ ہندستان میں جمہوریت کی حیات نو کے دروازہ کھول سکتا ہے۔ میونخ سلامتی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملہ پر خاموش ہیں لیکن انھیں ہندستانی ممبران پارلیمنٹ اور عالمی سرمایہ کاروں کے سوالوں کا جواب دینا چاہئے۔انھوں نے پیش گوئی کی کہ اس کے بعد ہںدستان پر مودی کی گرفت کمزور ہوگی اور بیحد ضروری ادارہ جاتی اصلاحات کے دروازے کھلیں گے۔ میں ہندستان میں جمہوریت کی حیات نو کی امید کرتا ہوں۔ اس سے پہلے بھی وہ دیواس کے ایسے ہی اجلاس میں مودی حکومت کی نکتہ چینی کر چکے ہیں وہاں انہوں نے نے کہا تھا کی راشٹرواد ہندستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہندستان جمہوری ملک ہے لیکن مودی جمہوری نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ چین کے زی شنگ پی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ 92 سالہ مسٹر سورس اپنی بیباکی خیراتی اور فلاحی کاموں نیز سرمایہ کاری میں مہارت کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ مودی سرکار کی سرپرستی کے باوجود اڈ انی گروپ پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ناممکن ہے اور انکی یہ پش گوئی اڈانی گروپ کے شیروں کو لے کر آج تک کے حالات سہی ثابت کر رہے ہیں۔
Published: undefined
لیکن جیسا کہ امید تھی اور جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے حکومت، مرکزی وزرا، بی جے پی کے بدزبان ترجمان، اسکی ٹرول بریگیڈ یہاں تک کی آر ایس ایس کا ترجمان اخبار پانچ جنیہ سب پنجے جھاڑ کر ان لوگوں کے پیچھے پڑ گئے جو مودی حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں جیسے جمہوری نظام میں سوال پوچھنا نہ صرف سب سے بڑا جرم بلکہ ملک دشمنی بھی ہے یہاں تک کہ پانچ جنیہ نے سپریم کورٹ کو بھی دیش دروہی قرار دے دیا۔ اسمرتی ایرانی جیسی وزرا کو چھوڑئے ایس جے شنکر جیسا کیریئر ڈپلومیٹ جو ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر خارجہ بنا دئے گئے وہ بھی بھکتوں جیسی زبان استعمال کر کے اپنے شاندار کیریئر کو داغدار بنا رہے ہیں۔ا سمرتی ایرانی نے سوریس کے بیان کو ہندستان کے خلاف اعلان جنگ قرار دے دیا اور بتایا کہ اس جنگ میں مودی ہمدستان دشمن طاقتوں کے سامنے کھڑے ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ سوریس نے ہندستانی جمہوریت کو تباہ کرنے کے لئے ایک ارب ڈالر کا فنڈ اکٹھا کیا ہے محترمہ کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ حکموت ہند اور اس کا خفیہ محکمہ بشمول ’را‘ اب تک اسکا انکشاف کیوں نہیں کر سکا اور سوریس کے اس بیان کے بعد ہی ان پر یہ وحی کہاں سے اور کیسے نازل ہو گئی۔
Published: undefined
در اصل یہ روایتی مودی اسٹائل ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے تو انکی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا گجرات کی اسمیتا (عزت/وقار) پر سوال اٹھانا قرار دیا جاتا تھا اور اب جب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں تو ایسے سوال ملک دشمنی قرار دے جانے لگے جبکہ سوال اٹھانا حکومت کی نکتہ چینی کرنا یہاں تک کہ اس پر الزام لگانا بھی جمہوریت کا حصہ اور فعال جمہوریت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ الزام لگانا اپوزیشن کا حق اور جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے ایوان میں حکمران جماعت کے ممبران ہی اپنی حکومت پر سوال کھڑا کر دیتے تھے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے داماد اندرا گاندھی کے شوہر اور راہل گاندھی کے دادا فیروز گاندھی نے پہلی ہی لوک سبھا میں بدعنوانی کے ایک معاملہ کو اتنی زورر شور سے اٹھایا کہ پنڈت نہرو کو اپنے وزار مالیات کرشنمچاری سے استعفا لینا پڑا انہوں نے ذاتی رشتے اور پارٹی ڈسپلن کے نام پر فیروز گاندھی کو خاموش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آکسائی چن کے مسلہ پر جب ایوان میں وزیر اعظم نہرو نے کہا کہ وہ زمین کا ایک ایسا ٹکرا ہے جس پر ایک گھاس نہیں اگتی تو کانگریس کے ہی ممبر مہابیر تیاگی نے کھڑے ہو کر اپنا گنجا سر دکھایا اور پنڈت نہرو سے پوچھا میرے سر پر بال نہں اگتے کیا میں اپنا سر کٹوا دوں۔ایوان میں قہقہہ گونج اٹھا خود پنڈت نہرو بھی ہنس دئے لیکن نہ ان پر کوئی تادیبی کارروائی ہوئی نہ انھیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔
Published: undefined
ایک بات تو پکی ہے 2024 تک مودی کے گرد دائرۂ اور تنگ ہوگا بات ہندستان سے نکل کر عالمی سطح تک پہنچ گئی ہے ہر عالمی رینکنگ میں چاہے وہ جمہوریت کا معاملہ ہو حقوق انسانی کا معاملہ ہو اقلیتوں کے حقوق اور انکے تحفظ کا معاملہ ہو میڈیا کی آزادی کا معاملہ ہو ہندستان کا نمبر نیچے ہی آ رہا ہے۔ اندرون ملک حکومت کی جمہوریت مخالف حرکتوں آئینی اداروں کی بے توقیری بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنا اور ان ریاسدتوں کو پولیس اسٹیٹ بنا دینا راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ان سب کے خلاف ایک بیداری تو پیدا کر دی ہے۔ علاقائی پارٹیوں میں بھی یہ احساس دھیرے دھیرے پیدا ہونے لگا ہے کہ اگر ان حالات کو نہ روکا گیا تو ملک میں نہ صرف جمہوریت کا جنازہ نکل جائیگا بلکہ خود انکا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ 2024 کے عام انتخابات میں کیا ہوگا یہ پیش گوئی کرنا تو فضول ہے کیونکہ جو مودی نوٹ بندی جی ایس ٹی لاک ڈ اؤن کورونہ جیسی تباہ کن پالیسیوں خراب حکمرانی اور بے عملی کے باوجود الیکشن جیت سکتا ہے اسکا ادانی گیٹ جیسے واقعات اور سوریس جیسے لوگوں کے بیان کیا نقصان کر پائینگے لیکن پایہ تخت ہل رہا ہے یہ بھی حقیقت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined