سال 2014 میں عوام کو لگا تھا کہ ملک بہت ہی برے دنوں سے گزر رہا ہے اور ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک میں اچھے دن لے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے معصوم عوام کے سامنے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی ایسی تصویر پیش کی کہ بس ان کو لگنے لگا کہ ملک کے اچھے دن اسی شخص کی قیادت میں آ سکتے ہیں اور انہوں نے آنکھیں اور عقل دونوں بند کرکے ان اچھے دنوں کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔
Published: undefined
بی جے پی نے ان بیچارے عوام کو ایسے اچھے دنوں کا خواب دکھایا جس میں ان کو نظر آیا کہ ملک سے کالا دھن ختم ہو گیا ہے اور نتیجہ میں ان کے نجی کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ جمع ہو گئے ہیں، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے انہوں نے اپنی گاڑی استعمال کرنی بند کر دی تھیں، وہ اب ان گاڑیوں کو محض 34 روپے فی لیٹر پٹرول ڈلوا کر سڑکوں پر دوڑاتے پھر رہے ہیں، ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی عمر کی طرح بڑھ رہی تھی وہ بھی نوجوانوں کی عمر سے مقابلہ کرنے لگی ہے، مہنگائی کا تو پوچھو ہی نہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ہر چیز مفت مل رہی ہو۔ کافی دنوں تک تو عوام اس خواب میں اتنے مست رہے کہ انہوں نے آنکھ کھولی ہی نہیں، لیکن بیچارے کب تک آنکھیں بند کیے سوتے رہتے، جینے کے لئے آنکھ تو کھولنی ہی تھی، لیکن آنکھ کھلتے ہی خواب چکنا چور ہو گیا کچھ لوگوں نے ابھی بھی ان اچھے دنوں کے لالچ میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اس خواب کے حقیقت ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
Published: undefined
اب جب مہنگائی میں 30 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے، ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت بڑھتی ہی جا رہی ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی منڈی میں وزیر اعظم کے ’نصیب‘ سے کم ہو گئی ہیں، لیکن عوام کے لئے یہ مستقل آسمان چھو رہی ہیں، یہ ضرور ہے کہ کالے دھن کے نام پر کی گئی نوٹ بندی نے عوام کے کاروبار تو ختم کر دیئے ہیں، لیکن کالا دھن ختم نہیں ہوا بلکہ ’سوئس‘ بینک میں ہندوستانیوں نے رقم خوب جمع کی ہے، جو ایک ریکارڈ بن گیا ہے، جب کالا دھن ختم نہیں ہوا تو پندرہ لاکھ بینک کھاتوں میں کیسے آتے۔ اوپر سے کورونا کی وبا نے حکومت کی کارکردگی پر اور سوال کھڑے کر دیئےہیں۔ اسپتالوں میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے مریض دھکے کھاتے رہے، آکسیجن کی قلت کی وجہ سے مریض تڑپ تڑپ کر دم توڑتا ہوا نظر آیا، شمشان گھاٹ پر جب جگہ نہیں ملی تو کیسے کیسے آخری رسومات ادا کیں، اس کا حال اس کو ہی معلوم ہے۔
Published: undefined
قصہ مختصر عوام کے نہ کبھی اچھے دن آئے تھے اور اچھے دنوں کا وعدہ کرنے والوں نے پندرہ لاکھ کو شروع میں ہی ’جملہ‘ قرار دے دیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، اچھے دن کے جملوں کی وجہ سے بر سر اقتدار جماعت بی جے پی اور اس کے قائد کے دن بہت اچھے آئے۔ زیادہ تر ریاستوں میں انتخابی فائدہ ہوتا نظر آیا، عوام میں اپنے قائد کے لئے ایسا بھکتی والا رجحان پیدا ہوا کہ وہ اپنے قائد کی تنقید سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بہر حال اب ایسا لگتا ہے کہ اس پارٹی اور اس کے قائد کے بھی اچھے دن غائب ہوتے نظر آ رہے ہیں، کیونکہ عوام نے آنکھیں کھولنی شروع کر دی ہیں اور وہ زمینی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں ان کو احساس ہوگیا ہے کہ وہ اچھے دنوں کے نعرے میں چھلے گئے ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی کو آج ہر ریاست میں پریشانی کا سامنا ہے چاہے وہ اتر پردیش ہو، چاہے وہ کرناٹک ہو، چاہے وہ مدھیہ پردیش ہو، اترا کھنڈ میں چار مہینے میں ہی وزیر اعلی بدلنے کی مجبوری ہے کیونکہ چار ماہ پہلے جس کو وزیر اعلی بنایا گیا تھا اس نے استعفی دے دیا ہے۔ اس کے سب سے پرانے سیاسی ساتھی اکالی دل اور شیو سینا اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور کورونا وبا نے جس طرح گورننس کی پول کھولی ہے اس نے عوام کو خواب سے باہر بھی نکالا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے غصہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب حکمراں جماعت کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ عوام خواب غفلت سے باہر آ گئے ہیں اور حقیقت کو دن کی روشنی میں جاگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز