سیاسی

امت شاہ کو کون بتائے تہذیب  کیا ہے!

امت شاہ کے جملوں اور تقریروں میں سیاسی شعور، تہذیب اور روایات کی جگہ گھمنڈ واضح طور پر نظر آتا ہے

Getty Images
Getty Images 

بی جے پی کے قومی صدر جب بولتے ہیں تو اخلاقیات، نرم مزاجی اور تہذیب ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ ان کی زبان انتہائی گھٹیا، لہجہ سڑک چھاپ اور انداز قابل اعتراض ہوتا ہے۔ ان کے جملوں اور تقریروں میں سیاسی شعور، تہذیب اور روایات کی جگہ گھمنڈ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان کی باتوں سے نہ تو تاریخ کا علم ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی مباحثہ کے اصولوں پر عمل۔

حال ہی میں بی جے پی سربراہ امت شاہ نے ایک جلسہ میں کہا کہ ’’کانگریس نے اب تک صرف چار ’یاترائیں‘ ہی نکالی ہیں جن میں سے تین جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی ’استھی کلش یاترائیں ‘ ہیں اور چوتھی راہل گاندھی کی ’بغیر کلش کی یاترا‘ ہے۔ یہ انتہائی قابل اعتراض اور بدنیتی ظاہر کرنے والی زبان ہے۔ یہ زبان ’ہندوازم‘ کی بیمار ذہن والی شبیہ ظاہر کرتی ہے۔

ایسے لوگوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ تاریخ کبھی ’گزرتی‘ نہیں ہے بلکہ نئے ضمن میں ہمارے سامنے آتی ہے، ہمیں ماحول کو پہچاننے کا پیغام دیتی ہے۔ لیکن امت شاہ جب بولتے ہیں تو تاریخ کے تئیں ان کی لاعلمی کا مظاہرہ تو ہوتا ہی ہے، ان کی اپنی شبیہ بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔

امت شاہ کو تاریخی ’یاتراؤں‘ سے آشنا کرانے کے لیے موجودہ وقت سے تقریباً 100 سال پیچھے جانا ہوگا۔ ویسے بھی رواں سال یعنی 2017 مہاتما گاندھی کے ’چمپارن ستیہ گرہ‘ کا صدی سال ہے۔ 100 سال پہلے گاندھی جی نے بہار کے چمپارن میں نیل باغان مالکوں اور مزدوروں پر انگریزوں کے مظالم کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ گاندھی جی کو چمپارن میں انگریزی مظالم کی جانکاری کانگریس کے لکھنؤ اجلاس سے ملی تھی جہاں چمپارن کے ایک شخص نے گاندھی جی سے اس تحریک کی قیادت کرنے کی اپیل کی تھی۔ مہاتما گاندھی بخوشی اس تحریک کے لیے رضامند ہو گئے تھے کیونکہ وہ ہندوستان کی نبض کو، اس کے درد کو، تکلیف کو سمجھتے اور جانتے تھے۔ جنوبی افریقہ میں انقلابی تبدیلی لانے کے بعد جنوری 1915 میں گاندھی جی ہندوستان واپس آئے تو انھوں نے ایک سال تک ملک کا دورہ کیا اور ہندوستان کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس دورہ کے بعد ہی باپو نے گجرات میں احمد آباد کے پاس سابرمتی ندی کے ساحل پر اپنا آشرم بنایا اور اس کا نام ’ستیہ گرہ آشرم‘ رکھا۔ اس آشرم کی بنیاد دراصل اس دورے سے حاصل تجربات سے ہی پڑی تھی۔ تو کیا یہ کانگریس کی ’یاترا‘ نہیں تھی۔

امت شاہ جس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں اسی ریاست میں سابرمتی آشرم سے تاریخی ’دانڈی یاترا‘ شروع ہوئی تھی۔ کانگریس نے مکمل آزادی کو اپنا اولین مقصد قرار دیا اور اسی خطۂ ارض میں گاندھی جی نے کانگریس کے تحت پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ’سوینے اوَگیا آندولن‘ (سول نافرمانی تحریک) یعنی ’نمک ستیہ گرہ‘ یا ’دانڈی یاترا‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس یاترا کے لیے نہرو، پٹیل اور دوسرے کانگریسی عوام کو متحد کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ کیا یہ بھی کانگریس کی یاترا نہیں تھی۔ لیکن گھٹیا اور سڑک چھاپ لفظوں کا استعمال کرنے والے لوگ اس تاریخی حقیقت کو نہ جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔

کانگریس کی یاتراؤں کے ضمن میں مزید آگے بڑھتے ہیں... آزادی کے بعد جواہر لال نہرو نے ملک کے تمام حصوں کا دورہ کر کے مقامی امکانات کو دیکھا، سمجھا اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اور بنیادی ڈھانچے تیار کرنے کی بنیاد رکھی۔ ’استھی کلش یاترا‘ کو ہی یاترا تصور کرنے والے اِن ناخواندہ اور اناپرست لوگوں کو مزید بتانا ہو تو 70 کی دہائی میں اندرا گاندھی کے دورۂ ہند سے متعلق بھی بتایا جا سکتا ہے۔ 1977 میں اس دورہ کے دوران جب یہ خبر آئی کہ بہار کے بیلچی میں ہریجنوں اور دلتوں کا قتل ہوا ہے تو اندرا گاندھی نے وہاں جانے کا بھی فیصلہ لیا۔ بیلچی گاؤں دور دراز کا علاقہ تھا۔ اندرا گاندھی نے وہاں جانے کے لیے طویل سفر کیا۔ میلوں پیدل چل کر جب سامنے ندی آ گئی تو انھوں نے ہاتھی پر چڑھ کر ندی کو پار کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی۔ کیا یہ کانگریس کی یاترا نہیں تھی؟ لیکن ٹویوٹا کی بڑی بڑی ایس یو وی میں بڑے قافلے کے ساتھ چلنے والے اناپرست اور عوام کی سوچ کا ’اسکیل‘ بدلنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ایسی یاتراؤں کے معنی سمجھ ہی نہیں سکتے۔

بی جے پی سربراہ کو مزید ایک یاترا کی یاد دلانی ہوگی، جب مرحوم راجیو گاندھی نے ’ریل یاترا‘ شروع کی تھی۔ 1989 میں لوک سبھا انتخابات میں ملی شکست کے بعد راجیو گاندھی نے پورے ملک میں لوگوں سے براہ راست بات کرنے کے لیے یہ سفر کیا تھا۔ اس دورہ میں راجیو گاندھی کو جو عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی اس سے حزب اختلاف پارٹیوں اور سیاسی مخالفین کی نیند اڑی ہوئی تھی۔ کیا یہ کانگریس کی یاترا نہیں تھی؟ 1991 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی راجیو گاندھی ملک کے مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک براہ راست لوگوں سے بات چیت کی تھی جس کے نتیجے میں کانگریس کو ناقابل فراموش فتح حاصل ہوئی تھی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، موت کے فرشتے نے راجیو گاندھی کو ملک سے چھین لیا۔ کیا بی جے پی سربراہ اس یاترا کو سمجھ پائیں گے؟

جن تین کلش یاتراؤں کا تذکرہ امت شاہ نے اپنی تقریر میں کیا ہے، دراصل وہ جدید ہندوستان کی تعمیر، ملک سے غربت کو مٹانے کے عزم اور ملک کو 21ویں صدی میں تکنیک سے مزین قوم کی شکل دینے سے متعلق کوششوں کی مثال ہیں۔ لیکن ملک کو نفرت، فرقہ پرستی، اکثریت پرستی اور پولرائزیشن کی آگ میں جھونکنے والے لوگ اِن یاتراؤں کا نہ تو مقصد سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان عظیم لیڈروں کی قربانیوں کی اہمیت کو۔

لگتا ہے امت شاہ نے سنت کبیر کا کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا، ورنہ زبان کی نرمی اور تہذیب کا انھیں کچھ تو علم ہو ہی جاتا۔ ایک دوہے میں کبیر کہتے ہیں–

کُٹِل وَچن سب تے برا، جاری کرَے سب چھار...

اس دوہے کا مطلب یہ ہے کہ برائی سے پُر لفظوں سے برا کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ سبھی کو جلا کر خاک کر دیتا ہے۔

بی جے پی صدر کو یاد دلانا لازمی ہے کہ ان کے اس گھمنڈی اور اشتعال انگیز تقریر سے دو دن پہلے ہی امریکہ میں راہل گاندھی کے ذریعہ دی گئی تقریر کا ذرا موازنہ ہی کر لیں۔ شخصیت کی تازگی اور زبان کی نرمی و تہذیب کا تذکرہ آج ہر جگہ ہو رہا ہے۔ وہ اخبار اور نیوز چینل جو کانگریس لیڈروں کو غلط ٹھہرانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے، انھوں نے بھی راہل گاندھی کی اس تقریر کی خوب تعریف کی ہے۔ اناپرستی سے لبریز زبان بولنے والوں کو یہ دوہے ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں–

تلسی میٹھے وچن تَے، سکھ اُپجت چہوں اور

وشی کرن کے منتر ہیں، تج دے وچن کٹھور

(گوسوامی تلسی داس)

ایسی بانی بولیے، من کا آپا کھوئے

اورن کو شیتل کرے، آپہو شیتل ہوئے

(سنت کبیر)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined