دنیا کو کورونا سے لڑنے کے لیے کوئی ہتھیار ملا ہو یا نہ ملا ہو ہندوستان کی حکومت کو ضرور مل گیا ہے۔ یہاں کے وزیر اعظم اختراعی ذہن کے یعنی Innovative ذہن کے مالک ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو وہ فوراً اس کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد جتنے اندھ بھکت ہیں وہ پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں کہ دیکھا مودی جی نے کیسے چٹکی بجاتے ہی فلاں مسئلے کو حل کر دیا۔ اب کورونا وائرس کو بھگانے کے لیے بھی مودی جی کو فارمولہ مل گیا ہے۔ پہلے تالی، تھالی اور گھنٹی بجوائی اور اب دیا، کینڈل اور ٹارچ جلوا رہے ہیں۔
Published: undefined
ایک یو ٹیوب چینل کا نام ہے ’’فیکنگ نیوز‘‘۔ اس کے اصل کیرکٹر کا نام ہے بھگت رام۔ وہ مودی کی شان میں اضافہ کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نئی نئی چیزیں لاتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے بڑے پتے کی بات بتائی۔ اس نے کہا کہ پہلے ہم نے خوب تھالی اور تالی اور گھنٹی بجا کر کورونا کو بہرا کر دیا تھا اس کے کان میں سیٹیاں بجنے لگی تھیں۔ اب ہم دیا، کینڈل اور ٹارچ جلا کر اتنی روشنی پیدا کریں گے کہ اس کی آنکھیں چندھیا جائیں گی، وہ اندھا ہو جائے گا، اسے کہیں راستہ نہیں ملے گا اور وہ دُم دبا کر ہندوستان سے رفو چکر ہو جائے گا۔
Published: undefined
کتنی سچی اور اچھی عکاسی کی گئی ہے اندھ بھکتوں کی۔ بالکل ایسے ہی سوچتے ہیں اندھ بھکت۔ مودی جی کے بارے میں ان کی جو خوش فہمیاں ہیں وہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ وہ پردھان منتری کے ایک ایک اشارے کو نئے نئے مفہوم پہناتے ہیں اور مودی جی کے دل و دماغ میں بھی جو بات نہیں ہوتی اندھ بھکت وہ باتیں نکال کر لے آتے ہیں۔
Published: undefined
خیر ہندوستان کو کورونا کو بھگانے کا مُول منتر مل گیا ہے۔ اتنے ٹوٹکے کرو کہ اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا ہو رہا ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔ مجبور ہو کر وہ ہندوستان کی سرزمین کو خیرباد کہہ دے گا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ گردش کر رہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ دوسرے ملکوں میں کورونا سے لڑنے کے لیے کیا کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض ملکوں میں سٹی بسوں کے ذریعے دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
ان بسوں میں آگے کی جانب بالکل پیشانی پر دونوں طرف دائیں اور بائیں پائپ لگے ہوئے ہیں جن سے جب بس چلتی ہے تو کیمیکل کا چھڑکاؤ فوارے کی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے ملکوں میں عام گاڑیوں کے ذریعے بھی دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔ ترکی میں جگہ جگہ کیمپ لگاے گئے ہیں جس کے اندر فوارے کی شکل میں مسلسل کیمیکل کا چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ آنے جانے والے اس کیمپ میں داخل ہو کر چاروں طرف گھومتے ہیں اور وہ ان دواؤں سے شرابور ہو کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔
Published: undefined
بعض دیگر ملکوں میں دوسری ترکیبوں کو بھی اس کلپ میں دکھایا گیا ہے۔ لیکن ہندوستان کا جب نمبر آتا ہے تو لوگ تھالی پیٹتے ہوئے اور گو کرونا گو گو، کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ہے ہندوستان اور یہاں کورونا سے لڑنے کے انتظامات۔ اگر ہم اب تک کے انتظامات پر نظر ڈالیں تو اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوگا کہ حکومت اس عالمی وبا سے لڑنے میں سنجیدہ ہے۔
Published: undefined
موجودہ حکومت کی ایک بہت خاص عادت ہے اور اس عادت میں اس کا ساتھ میڈیا دیتا ہے۔ اس کی عادت یہ ہے کہ ملک پر کوئی بھی بحران کیوں نہ آیا ہو اس کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹا دو۔ اس سے قبل ملک میں ایک ایسے وزیر اعظم گزرے ہیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو سڑنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ وہ مسئلہ سڑ سڑ کر خود ہی ختم ہو جاتا تھا۔
Published: undefined
بالکل اسی طرح یہ حکومت مسائل حل نہیں کرتی بلکہ اس کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتی ہے اور اس طرح وہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ کورونا کے بحران سے بھی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے تالی، تھالی اور گھنٹی بجوائی گئی اور پھر دیا، کینڈل اور ٹارچ جلوائے گئے۔ لیکن کیا کورونا کا بحران ایسا ہے کہ وہ ان ٹوٹکوں سے ختم ہونے والا ہے۔
Published: undefined
اب حکومت کو ایک اور چانس مل گیا ہے اور وہ ہے تبلیغی جماعت۔ اب تو میڈیا نے حکومت کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔ تبلیغی جماعت کو ملک میں کورونا پھیلانے کا سب سے بڑا ذمہ دار مان لیا گیا ہے۔ بلکہ اگر بعض چینلوں کی رپورٹنگ دیکھیں تو آپ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بالکل دیر نہیں کریں گے کہ دنیا پر یہ جو عذاب آیا ہوا ہے اس کی جڑ میں تبلیغی جماعت ہی ہے۔
Published: undefined
تبلیغی جماعت کی آڑ میں پورے ملک کے مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھیں طالبانی اور دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں اور تبلیغی جماعت کے لوگوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں تبلیغیوں سے بڑا کوئی ملک دشمن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ان پر این ایس اے تک لگایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغی جماعت اور اس کے امیر مولانا سعد نے بہت بڑی کوتاہی کی۔ جب پوری دنیا میں کورونا وائرس پھیل گیا تھا اور ہندوستان میں بھی داخل ہو کر لوگوں کی جانیں لے رہا تھا تو ایسے میں ان کو اتنا بڑا اجتماع کرنے کی کیا ضرورت تھی جس میں بیسیوں ہزار لوگوں کی شرکت ہو۔ جب دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا تھا اور زیادہ لوگوں کے یکجا ہونے پر پابندی لگا دی تھی تو انھوں نے اجتماع کو منسوخ یا ملتوی کیوں نہیں کیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا سعد تقریریں کرتے رہے کہ مرنے کے لیے مسجد سے اچھی کوئی جگہ نہیں۔ آپ سب لوگ یہیں رہیں موت آنی ہوگی تو یہیں آجائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہے کہ ہمارا کچھ نہیں ہوگا اللہ تعالی ہمارا محافظ ہے۔
Published: undefined
اللہ تعالی تو سب کا محافظ ہے۔ جو اسے مانتے ہیں ان کا بھی جو نہیں مانتے ہیں ان کا بھی۔ مسلمانوں کا بھی اور کافروں کا بھی۔ اللہ پر صرف تبلیغی جماعت والوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ لیکن اللہ کے رسول نے بھی تو کچھ ہدایات دی ہیں۔ ان پر کیوں نہیں عمل کیا جاتا۔ کیا اللہ کے رسول نے وبائی امراض کے پھیلنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر نہیں بتلائی ہیں۔ پھر ان تدابیر کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے۔
بہر حال تبلیغی جماعت کی کوتاہیوں کی وجہ سے حکومت کو اور پولیس کو اس کے خلاف کارروائی کرنے اور میڈیا کو اس کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور حکومت کو کورونا جیسی مہلک بیماری سے نمٹ پانے میں اپنی ناکامی چھپانے کا ایک موقع مل گیا۔ اگر پولیس بروقت تبلیغی جماعت کے لوگوں کو مرکز جماعت سے نہ نکالنے کی مجرم ہے تو تبلیغی جماعت بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو وہاں رکھنے کی مجرم ہے۔
Published: undefined
لیکن سب سے بڑی مجرم حکومت ہے جو کورونا سے لڑنے پر اپنی توجہ مبذول کرنے کے بجائے ٹونے ٹوٹکے میں یقین کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح اسپتالوں کا عملہ ضروری آلات سے محروم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اسپتالوں کو ضروری چیزیں مہیا کرے تاکہ کورونا کا مقابلہ مؤثر انداز میں کیا جا سکے۔ اگر حکومت نے منظم انداز میں انتظامات کر دیئے تو پھر ان ٹوٹکوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ ویسے بھی ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined