وزیر اعظم نریندر مودی آج حلف برداری کریں گے۔ امکان ہے کہ ان کے ساتھ تقریباً دو درجن وزراء بھی حلف لیں گے۔ جیسا کہ نئی حکومت کی تشکیل کے دوران ہوتا ہے، مودی کابینہ کو لے کر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، لیکن مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے وزراء کا انتخاب۔ کیونکہ محکموں کے مطابق اہل اور باصلاحیت چہروں سے مودی حکومت اپنے پہلے دور میں بھی نبرد آزما رہی ہے۔
Published: undefined
قابل اور باصلاحیت وزراء کا سوال بدھ کو اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آیا کیونکہ خرابیٔ صحت کی بنیاد پر نریندر مودی کے پہلے دور میں وزارت مالیات سنبھالتے رہے ارون جیٹلی نے حکومت میں شامل نہ ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے اپنی صحت کی بات برسرعام کرتے ہوئے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس بارے میں مطلع بھی کر دیا ہے۔ ارون جیٹلی کا خط سامنے آنے کے بعد یہ قیاس مزید تیز ہو گئے ہیں کہ آخر وہ کون چہرے ہوں گے جو حکومت کا کام دیکھیں گے؟
Published: undefined
لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ہی ایک اور سب سے بڑا سوال جو اٹھ رہا ہے وہ یہ کہ کیا بی جے پی صدر اور نریندر مودی کے بے حد قریبی امت شاہ کابینہ کا حصہ ہوں گے یا نہیں؟ اور اگر ہوں گے تو سی سی ایس (سیکورٹی معاملوں کی کابینہ کمیٹی) کا حصہ ہوتے ہیں؟
Published: undefined
ساتھ ہی یہ سوال بھی ہے کہ امت شاہ کابینہ میں جاتے ہیں تو ان کی جگہ کون پارٹی صدر ہوگا؟ ویسے امت شاہ کا صدر کے طور پر مدت کار اس سال جنوری میں ختم ہو چکا ہے، لیکن لوک سبھا کے مدنظر انھیں انتخاب ختم ہونے تک توسیع دی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصی مودی اسٹائل میں آخری وقت تک کچھ بھی یقینی نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ اس کا باضابطہ اعلان نہ کر دیا جائے۔
Published: undefined
بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ نریندر مودی کو دراصل اس تنقید کا بھی دھیان رکھنا ہے جس میں کہا جاتا رہا ہے کہ کابینہ کا حصہ بننے کے لیے ان کے پاس قابل اور باصلاحیت چہروں کی کمی ہے۔ ساتھ ایک چیلنج نئے اور پرانے چہروں کو برابر کی نمائندگی دینے کے ساتھ ہی خاص علاقوں اور اہم معاونین کا دھیان رکھنا بھی ہے۔
Published: undefined
ذرائع کا کہنا ہے کہ امت شاہ کو اگر کابینہ میں شامل کیا جاتا ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ وہ ان چار سب سے اہم وزراء میں سے ایک ہوں گے جو سی سی ایس کا حصہ ہوتے ہیں۔ یعنی وزارت مالیات، دفاع، داخلہ اور خارجہ۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے بھی سب سے زیادہ امکان وزارت مالیات یا داخلہ کا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ حکومت میں راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ، سشما سوراج وزیر خارجہ، نرملا سیتارمن وزیر دفاع اور ارون جیٹلی وزیر مالیات تھے۔ سشما سوراج نے اس بار انتخاب نہیں لڑا، ایسے میں ان کے دوبارہ وزیر خارجہ بننے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ وہیں ارون جیٹلی نے خود ہی حکومت میں کسی ذمہ داری سے آزاد رہنے کی بات برسرعام کہہ دی۔
Published: undefined
حالانکہ خبریں ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی خود ارون جیٹلی سے مل کر انھیں حکومت میں شامل رہنے کے لیے گزارش کر رہے ہیں۔ ایسے میں قیاس ہے کہ ارون جیٹلی کی غیر موجودگی میں وزارت مالیات کا کام سنبھالتے رہے پیوش گویل کو محکمہ مالیات کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
ایک اور نام ہے جس کا تذکرہ فی الحال دبی آوازوں میں ہے، لیکن ان کے ٹاپ 4 وزراء میں شامل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ وہ ہیں انفراسٹرکچر سے جڑے کئی اہم محکموں کے وزیر نتن گڈکری۔ نتن گڈکری بی جے پی صدر بھی رہ چکے ہیں اور اس بار مانا جا رہا ہے کہ انھیں سی سی ایس کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
مودی کے سامنے ایک اور چیلنج ہے، بی جے پی کی 303 سیٹوں والی زبردست اکثریت کو درست ٹھہراتے ہوئے ساتھی پارٹیوں کا خیال رکھنا۔ اس میں ان پر اپنی پارٹی کے لیڈروں کی امیدوں کے ساتھ ہی ساتھی پارٹیوں اور بنگال و اڈیشہ جیسی ان ریاستوں کا دھیان رکھنے کا دباؤ ہے جہاں سے پارٹی کو ناقابل یقین کامیابی ہاتھ لگی ہے۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ انتخاب سے قبل مودی-شاہ کی جوڑی نے اپنے حق میں ماحول ہونے کے باوجود کئی ریاستوں میں ساتھی پارٹیوں کےس اتھ نرم رویہ اختیار کیا۔ ان میں مہاراشٹر اور بہار اہمیت کی حامل ہیں، جہاں تمام فارمولے کو درکنار کرتے ہوئے بی جے پی نے شیو سینا اور جنتا دل یو کے ساتھ برابری کا اتحاد کیا۔ ایسے میں کم از کم ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں شراکت داری کا دھیان تو رکھنا ہی پڑے گا۔
Published: undefined
وہیں اپنی ہی پارٹی کے کچھ لیڈروں کو ان کے مشکل کاموں میں کامیابی کا انعام دینا بھی مودی کے سامنے چیلنج ہے۔ ان میں امیٹھی سے جیت کر آئیں اسمرتی ایرانی، اتر پردیش کانگریس کی صدر رہیں ریتا بہوگنا جوشی جیسی لیڈر ہیں۔
Published: undefined
اس کے علاوہ ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے ساتھ ہی مغربی بنگال میں اسمبلی انتخاب بھی ہونے والے ہیں۔ اس وجہ سے ان ریاستوں میں انتخابی زمین مضبوط کرنے کا پیغام بھی کابینہ تشکیل سے دینا ایک چیلنج ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined