ہندوستان کی جمہوری روایات میں اختلاف رائے کا احترام سب سے اہم رہا ہے۔ مخالفین کی آواز سننا، ان کے مسائل اور مخالفت کے اسباب کو سنجیدگی سے لینا حکمرانوں کا فریضہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کی مثال دی جاتی ہے، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے ہمارے حکمرانوں نے اپوزیشن کے خلاف جس طرح کی روش اختیار کی ہے اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ ہندوستان کو ایک جماعتی نظام کی طرف دھکیل کر منمانی کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو ملک کی جمہوریت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ مرکزی حکومت طاقت کے زعم میں کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے، ہر گوشے کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہے اور صاف طور پر یہ تمام کوششیں جمہوری روایات اور اقدار کے مغائر کہی جاسکتی ہیں۔
Published: undefined
جمہوریت کے مندر پارلیمنٹ سے جس طرح اپوزیشن اراکین کو معطل کیا جا رہا ہے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے والے رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کی آواز برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی تمام مخالفانہ آوازوں کو دبانا چاہتی ہے۔ چاہے وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہو، سماجی کارکنوں کی جانب سے ہو، طلباء کی جانب سے ہو یا پھر صحافیوں کی جانب سے ہو۔ مجموعی طور پر حکومت ہر شعبے کی زبان بندی میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔ یہ نظارہ پارلیمنٹ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جہاں مانسون اجلاس کے دوران دونوں ایوانوں میں قیام امن کی حکمراں فریق کی خواہش انتہائی سخت کارروائیوں کے طور پر سامنے آرہی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ آئین کے رکھوالے بھی اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس شروع ہوئے 10 روز ہوچکے ہیں اس دوران حکومت نے بغیر اپوزیشن کی رائے معلوم کئے تن تنہا کچھ بل ضرور پاس کئے ہیں مگر عوامی مفاد کے کسی معاملے پر سنجیدگی سے بحث یا تبادلہ خیال نہیں کیا گیا ہے جب کہ اجلاس کے پہلے روز سے اپوزیشن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، افراط زر، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ جیسے اہم مسائل پر ایوان میں تبادلہ خیال کرنے پر مصر ہے کیونکہ ان بنیادی ضروریات کی وجہ سے ملک کے عوام پر مسلسل اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ عوام کو ہر ضروری شئے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے جس سے ملک کے ہر شہری کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اگرعوامی مسائل سے حکومت کی بے توجہی اسی طرح رہی تو ملک میں انقلاب برپا ہونا خارج ازامکان نہیں کہا جاسکتا ہے۔
Published: undefined
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اب تک راجیہ سبھا کے 20 ارکان پورے ہفتے کے لیے اور لوک سبھا کے 4 ارکان پورے اجلاس کے لیے معطل کر دیئے گئے ہیں۔ ان اراکین کا قصور محض یہ تھا کہ وہ مہنگائی اورجی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ کے معاملے پر فوری بحث کی مانگ کر رہے تھے۔ یہ ارکان ایوان میں عوامی مسائل پر مباحث کروانا چاہتے تھے، اپنی بات رکھنا چاہتے تھے، حکومت سے سوال کرتے ہوئے جواب طلب کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ حکمراں فریق کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ارکان کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ حکومت کی روش سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنے طریقے سے حکومتی کام کاج کو آگے بڑھانا چاہتی ہے اسی وجہ سے اپوزیشن کی رائے اور اعتراضات کو قبول کرنے یا کم از کم ان کا جائزہ لینے تک کے لیے حکومت تیار نظر نہیں آتی۔
Published: undefined
اپوزیشن کے ساتھ حکومت کے اس طرح کے رویئے کو کسی بھی طرح سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مانسون اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کا ہنگامہ کرنا، نعرے لگانا یا ویل میں جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بے شک اس وجہ سے کئی بارایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑتی ہے لیکن کسی جمہوری نظام میں اسے اپوزیشن کا جمہوری حق مانا جاتا ہے۔ اپوزیشن کسی مسئلے پر ایوان کی کارروائی روک کر یا پارلیمنٹ میں کام کاج ٹھپ کرکے بھی سیاسی پیغام دیتا ہے۔ حکمراں فریق ضرور کوشش کرتا ہے کہ ایسی نوبت نہ آئے اور پارلیمنٹ کا کام کاج بہتر طور سے چلے، یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے لیکن اس کے لیے وہ اپوزیشن جماعتوں اور سینئر رہنماؤں سے بات چیت کرکے ان کے ساتھ تال میل بنانے اور انہیں اعتماد میں لینے کا طریقے اپناتا ہے۔
Published: undefined
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کلاس روم جیسے ڈسپلن کی نہ توضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہر رکن اپنے علاقے کے عوام کی آواز ہوتا ہے۔ وہ عوام کے مفاد کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے جو حکومت کی خواہش اور اس کی مقررکردہ شرائط کے مطابق چلنے سے پوری نہیں ہوتی۔ خواہ حکمراں فریق کے پاس اعدادی قوت ہو، اپوزیشن کی آواز کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اس کی بھی ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری سے فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے لیے نیک شگون نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں یہ نوعیت کمزور پڑنے کی بجائے مضبوط ہو رہی ہے۔ گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن کے 12 ارکان معطل کئے گئے تھے، اس بار راجیہ سبھا کے 19 ارکان ایک ساتھ معطل کر دیئے گئے جواب تک کا ریکارڈ ہے۔
Published: undefined
حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تنقیدیں اگر تعمیری نوعیت کی ہیں تو ان کو قبول کرنا چاہئے کیونکہ عوام کو راحت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو عوامی مسائل پر بیدار کرنا اپوزیشن کا فریضہ ہے۔ جب تک دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے اس وقت تک عوام کو مسائل سے نجات نہیں ملے گی۔ ایوان میں نظم برقرار رکھنا اور کارروائی چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اپوزیشن کی آواز کو دبا کر پوری نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے فیصلوں سے حکمراں فریق اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ایوان کے اندر کام کاج کے لائق ماحول پیدا کرنا اور مشکل ہوجاتا ہے۔ حکمراں فریق کو چاہئے کہ اپوزیشن کی شکایات دور کرکے انہیں سامنے بٹھائے اور سمجھوتے کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے۔ بصورت دیگرعوام اپنے رہنماؤں سے مایوس ہو جائیں گے اور اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined