ہمارا ملک یوں تو ہر روز نت نئے سانحات سے دوچار ہوتا رہتا ہے مگر دو روز قبل جو حادثہ پیش آیا اس نے واقعتاً ملک کو لرزہ براندام کر دیا۔ بی سی سی آئی کے سربراہ اور بی جے پی کے رتھ پر سواری کے لیے بے تاب سورو گنگولی کو دل کا دورہ پڑ گیا جو غالباً اس قدر شدید تھا کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ سمیت مرکزی وزیر داخلہ و ان کے صاحبزادے تک پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے فوری طور پر ٹوئٹ کرتے ہوئے سورو گنگولی کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ موصوف جلد روبہ صحت ہوجائیں، مگر سربراہان کی ٹوئٹ سے ہمیں اس یقین میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
Published: undefined
یہ ٹوئٹر دراصل ہے ہی اس قدر کرشماتی شئی کہ اس کے دائرے میں آنے اور لانے والے دونوں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی بیماری کی حالت میں ٹوئٹر کے دائرے میں داخل ہوتا ہے تو اسے شفا مل جاتی ہے اور اگر کوئی بعد ازمرگ داخل ہوتا ہے تو اس کی آتما کو یقینی طور پر شانتی مل جاتی ہے۔ ہمارے مفتی سکندر خان کا خیال یہ ہے کہ ٹوئٹر ’صحت یابی‘ و ’آتما کی شانتی‘ کی ٹوئٹ کے لیے علیحدہ سے چارجیز (فیس) وصول کرنے والا ہے، مگر مجھے مفتی صاحب کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔
Published: undefined
لیکن جس دن ہمارے مہان کرکٹر ٹوئٹر معاف کیجئے گا دل کے دورے کی زد میں آئے، عین اسی دن دہلی کی سرحد پر مہینے بھر سے شریان کو منجمد کر دینے والی سردی میں بیٹھے ایک 75 سالہ شخص نے اپنی جان دے دی۔ لیکن اس کے لیے کسی سربراہ مملکت کے کسی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک لکیر تک نہیں کھنچی۔ یہاں تک کہ کسی نے اس کی آتما کی شانتی کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ جبکہ اس خودکشی کی تمام ذمہ داری انہیں سربراہان پر عائد ہوتی ہے جو آج گنگولی کے ہارٹ اٹیک پر ان کی اہلیہ ڈونا گنگولی کو حوصلہ دیتے نہیں تھک رہے ہیں۔ خودکشی کرنے والے شخص نے اپنی خودکشی نوٹ میں حکومت کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
Published: undefined
اس خودکشی کرنے والا شخص کا نام کشمیر سنگھ تھا جو اترکھنڈ کا رہنے والا تھا۔ وہ حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف اپنے پورے اہلِ خانہ کے ساتھ دہلی کی سرحد پر بیٹھا ہوا تھا مگرحکومت کے ٹال مٹول کو دیکھ کر اس نے اپنی جان دے دی۔ اس نے اپنی خودکشی نوٹ میں لکھا کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے، آخر ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے؟ حکومت ہماری بات نہیں سن رہی ہے، اس لیے میں اپنی جان دے رہا ہوں۔ میرا انتم سنسکار میرے بچوں کے ہاتھوں دہلی یوپی بارڈر پر ہونا چاہیے۔ میرے اہل خانہ یہیں احتجاج کرنے والے کسانوں کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ہمارے قومی میڈیا میں بھی یہ خبر کوئی خاطر خواہ جگہ حاصل نہیں کرسکی البتہ سوشل میڈیا پر ہنگامے کے بعد کچھ پرنٹ میڈیا نے اپنی لاج رکھنے کے لیے ایک باکس میں اس خبر کو ضرور سمیٹنے کی کوشش کی۔
Published: undefined
اس کسان کی موت پر پردھان سیوک سے ردعمل کی امید تو خیر فضول ہی تھی، لیکن جن کسانوں کے طفیل آج ملک کو وزیر زراعت کا نام معلوم ہوسکا، وہ بھی اس پر کچھ نہیں بولے۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ ہمارے پردھان سیوک کے پورے ٹولے کے نزدیک زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان تو اینٹی نیشنل ہیں، خالصتانی ہیں، اپوزیشن کے بہکاوے میں آگئے ہیں۔ پھر بھلا دنیا کے سب سے بڑے دیش بھکتوں کو ایک اینٹی نیشنل، خالصتانی وبہکاوے میں آجانے والے کسان کی موت سے کیا فرق پڑتا؟ ہاں اگر اس کسان کی جگہ پر مغربی بنگال کا کوئی ایکٹر یا کریکٹر ہوتا تو ’شردھانجلی‘ کا ایک طوفان ضرور امڈ پڑتا کیونکہ وہاں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ممکن ہے اس کو آپ غلو قرار دیں مگر ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں سوشانت سنگھ راجپوت کی خوکشی کو، پردھان سیوک خود اور ان کے آئی ٹی سیل نے سوشانت کی آتما کو شانتی دلانے کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا جو اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بہار میں اس کے بیک فائر کا یقین نہیں ہوگیا۔
Published: undefined
سورو گنگولی بی جے پی میں شامل ہونے ہی والے تھے کہ اس جانکاہ حادثے کا شکار ہوگیے۔ اس کا درد امت شاہ و ان کے صاحبزادے جئے سنگھ سے زیادہ اور بھلا کس کو ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے والد بنگال جیتنا چاہتے ہیں اور صاحبزادے بی سی سی آئی کے سکریٹری ہیں۔ بھلا یہ کون نہیں جانتا کہ بی سی سی آئی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔ کارپوریٹ کا پورا پیسہ اسی بی سی سی آئی کے ذریعے ہی سیاست میں داخل ہوتا ہے۔ اب ایسے میں بھلا سورو گنگولی کے ہارٹ اٹیک پر حکومت کے ایوان میں زلزلہ آئے گا یا کسی بے نام وحکومت کے مخالف کسان کی خودکشی سے؟ جب سے کسانوں کا احتجاج شروع ہوا ہے ابھی تک پچاس سے زائد کسان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اگر حکومت کو کسانوں سے سورو گنگولی سے نصف بھی ہمدردی ہوتی کسانوں سے بات چیت کے ڈرامے کی قسط کب کی مکمل ہوچکی ہوتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined