سیاسی

اقتدار کا غرور چکناچور… سہیل انجم

اب جنوبی ہند سے بی جے پی کا مکمل طور پر صفایا ہو گیا ہے اور ایک ایک کرکے متعدد ریاستیں اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں۔ چند ریاستوں میں اس کی حکومت بچی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>کرناٹک کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سدارمیا حلف برداری کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے / ٹوئٹر</p></div>

کرناٹک کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سدارمیا حلف برداری کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے / ٹوئٹر

 

پاکستان کے معروف شاعر اعجاز رحمانی کا ایک شعر ہے:

ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہوں گے

میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں

لیکن یہاں کوئی ابہام نہیں ہے، کوئی شش و پنج نہیں ہے۔ سب کچھ صاف شفاف اور واضح اور شیشے کی طرح عیاں ہے۔ پھر بھی ابھی بہت دنوں تک اس پہ تبصرے ہوتے رہیں گے۔ اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ اس کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا اور ان تجزیوں کی روشنی میں مستقبل کی سیاست کی صورت دیکھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ قارئین بات کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں گے۔ ہم ذکر کر رہے ہیں کرناٹک اسمبلی کے انتخابی نتائج کا۔ ان نتائج کا جنھوں نے اقتدار کا غرور چکناچور کر دیا۔ قابل مبارکباد ہیں کرناٹک کے رائے دہندگان جنھوں نے طاقت کے نشے کو ملیا میٹ کر دیا۔ جنھوں نے تکبر کے سر کو جھکا دیا اور جنھوں نے یہ بتا دیا کہ وہ نفرت کی نہیں محبت کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ جو منافرت کی دکان کے نہیں محبت کی دکان کے گاہک ہیں۔

Published: undefined

مرکز میں حکومت کرنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں بھی شمالی ہند کی نفرت انگیز سیاست کی فصل لہلہائے گی اور وہ اس فصل کو کاٹ کر ایک بار پھر اس ریاست کے مالک و مختار بن جائیں گے۔ انھوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ کرناٹک کے عوام کے حلق میں بھی وہی نشہ آور مادہ انڈیل کر ان کو اپنے اشاروں پر رقص کرنے پر مجبور کر دیں گے جس نشے سے انھوں نے شمالی ہند کے عوام کے ایک بڑے طبقے کے ذہن و دماغ کو ماؤف کر دیا ہے۔ انھوں نے بعض دوسرے خطوں کی ریاستوں کے عوام کو بھی اسی نشے کا عادی بنا دیا ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ کرناٹک کے عوام نے تو کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا ہے۔

Published: undefined

یہی وجہ ہے کہ نہ تو ہزاروں ٹن پھولوں کی پنکھڑیاں کام آئیں اور نہ ہی روڈ شو کے تماشے کام آئے۔ نہ ریلیوں کی ہنگامہ آرائی نتیجہ خیز ثابت ہو سکی اور نہ ہی منافرانہ بیانات کی آندھی کوئی کام کر سکی۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے یہ دیکھا کہ اب کوئی منتر کام نہیں کر رہا ہے تو انھوں نے بجرنگ بلی کو انتخابی سیاست میں گھسیٹ لیا۔ جب کانگریس نے اعلان کیا کہ وہ اگر اقتدار میں آئی تو بجرنگ دل پر پابندی عاید کر دے گی تو ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ ایک ایجنڈہ ہاتھ لگ گیا۔ بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما اور سیاسی برانڈ بن چکے وزیر اعظم نریندر مودی نے بذات خود بجرنگ بلی کہ کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا شروع کر دیا۔

Published: undefined

انھوں نے انتخابی ریلیوں میں بجرنگ بلی کی جے کے نعرے لگوا کر یہ سمجھ لیا تھا کہ اب بجرنگ بلی ان لوگوں کی نیا پار لگانے آجائیں گے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بجرنگ بلی بھی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے نام کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور دیگر بی جے پی رہنماؤں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہنومان جی ان لوگوں کے لیے بھی سنجیونی بوٹی لے آئیں گے اور ریاست میں مردہ ہو چکی بی جے پی کو سنگھا کر اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے۔ لیکن ہنومان جی نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ان فرضی بھکتوں کی کوئی مدد نہیں کریں گے اور وہ ان لوگوں کے لیے سنجیونی بوٹی لے کر نہیں آئیں گے۔ اس بارے میں کئی کارٹون بھی بنائے گئے اور وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کا مذاق اڑایا گیا۔

Published: undefined

اس پر ابھی کافی دنوں تک بحث و مباحثے ہوں گے کہ کرناٹک میں بی جے پی کیوں ہاری اور کانگریس کی اتنی شاندار جیت کیوں ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بار محبت اور نفرت کے درمیان سخت مقابلہ تھا اور کرناٹک کے عوام نے محبت کے حق میں فیصلہ سنا کر مستقبل کی سیاست کا اشارہ دے دیا۔ کانگریس نے بجا طور پر عوام کو تقسیم کرنے والی سیاست کے خلاف مہم چلائی۔ پرینکا گاندھی نے جب جب یہ بات کہی کہ وزیر اعظم ترقی، مہنگائی اور بے روزگاری کی بات کیوں نہیں کرتے عوام نے تب تب ان کا پرجوش استقبال کیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ نریند رمودی کی تقریروں پر پرینکا گاندھی کی تقریریں بھاری پڑ گئیں۔

Published: undefined

لیکن ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ کانگریس کی اس شاندار جیت کی بنیاد راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے رکھ دی تھی۔ اس یاترا کے بعد جس طرح راہل گاندھی کا قد بلند ہوا اور کانگریس میں نیا جوش پیدا ہوں اس سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی تھی۔ لہٰذا ان کے خلاف عدالتی فیصلہ سنایا گیا۔ ان کی لوک سبھا کی رکنیت چھین لی گئی۔ ان کو ان کے گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔ طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کے ان انتقامی فیصلوں نے عوام کے درمیان یہ پیغام پہنچایا کہ راہل گاندھی کو محض اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ان کا سیاسی قد بہت بلند ہو گیا ہے۔

Published: undefined

انتخابی مہم کے دوران کانگریس کی مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ ریاستی قیادت نے بھی بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے وزیر اعلیٰ سدارمیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار تو مبارکباد کے مستحق ہیں ہی، دوسرے رہنما اور کانگریسی کارکن بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سب سے زیادہ مبارکباد کے مستحق کرناٹک کے عوام ہیں جنھوں نے نفرت انگیزی کی پیشانی کو خاک آلود کر دیا۔ جنھوں نے حجاب کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو مسترد کرتے ہوئے یہ بتا دیا کہ وہ سیاست میں مذہب اور مذہبی منافرت کی آمیزش کے خلاف ہیں۔ مبارکباد کے مستحق ریاست کے مسلمان بھی ہیں جنھوں نے یکمشت کانگریس کے حق میں ووٹ دیا اور اس کی حکومت بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

Published: undefined

اب جنوبی ہند سے بی جے پی کا مکمل طور پر صفایا ہو گیا ہے اور ایک ایک کرکے متعدد ریاستیں اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں۔ چند ریاستوں میں اس کی حکومت بچی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کا بھی یہی نتیجہ نکلنے والا ہے۔ سیاسی مبصرین ڈنکے کی چوٹ پر اب کہنے لگے ہیں کہ مودی حکومت کا زوال شروع ہو گیا ہے اور اگلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی والے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگ ڈور چھن جائے اس لیے وہ کوئی بھی خطرناک چال چل سکتے ہیں۔ لہٰذا کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ہوشیار رہنے اور ان کی چالوں میں پھنسنے سے بچے رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اگر ان کی چالیں کامیاب ہو گئیں تو پھر یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا اور ایسا نقصان ہوگا جس کا جلد ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔ 

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined