سیاسی

ہندوتوا مخالفین کے ’ودھ‘ کا جشن منانے میں یقین رکھتا ہے

ہندوتوا مخالفین کے ’ودھ‘ کا جشن منانے میں یقین رکھتا ہے

Getty Images
Getty Images 

مرکزی وزیر انفارمیشن ٹیکنا لوجی روی شنکر پرساد نےایک بیان کے ذریعہ ان افراد کی مذمت کی ہے جنہوں نے گوری لنکیش کے قتل پر سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ پرساد نے اس سلسلے میں غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔

روی شنکر پرساد نے سوشل میڈیا پر لکھا ’’میں اس بات کی سخت مذمت کرتا ہوں کہ کچھ لوگوں نے گوری لنکیش کے بہیمانہ قتل پر خوشی کا اظہار کیا۔‘‘

یہ وزیر موصوف کی فراخ دلی کا ثبوت ہےکہ انہوں نے ایسا بیان دیا ۔ لیکن روی شنکر پرساد کو یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بیان کے ذریعہ کس کو مخاطب کر ہے ہیں ۔ کیو نکہ وہ ’ٹرول‘جنہوں نے گوری کے ’وَدھ‘ (قتل) کا جشن سوشل میڈیا پر منایا وہ ہند وتوا نظریہ میں نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ ہندوستان کو ایک ’ہندو پا کستان‘ بنانے کے بھی درپے ہیں ۔ در اصل ہندوتوا نظریہ پر عمل کرنے والے افراد کا یہ پرانا طرز رہا ہے کہ وہ اپنے حریف کے خاتمے پر اس کا جشن بطور ’وَدھ‘ مناتے ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی جشن نریند ر ڈھابولکر ، گووند پنسارے اور پروفیسر کلبرگی کے قتل کے بعد بھی منایا تھا۔

حد تو یہ ہے کہ ’ہندو قوم پرستوں‘ نےگاندھی جی کے قتل کے بعد بھی ایسا ہی جشن منایا تھا اور اس کا ذکر سب سے پہلے کسی اور نے نہیں بلکہ ہندوستان کے اول وزیر داخلہ سردار پٹیل نے خود ایک خط میں کیا تھا۔ سردار پٹیل نے 11 ستمبر 1948 کو آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گولوالکر کو جو خط لکھا اس میں انھوں نے لکھا ’’آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کی موت پر محض خوشی کا ہی اظہار نہیں کیا بلکہ مٹھائیاں بھی بانٹیں۔‘‘

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس قسم کا جشن سنگھ کی قیادت کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے تو وہ یقینا مغالطے کا شکار ہیں۔ کیونکہ سنگھ کی ایک حلیف تنظیم جس کا نام ہندو جن جاگرتی منچ ہے وہ پورے ملک میں کنونشن کر کے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے عزم کا اظہار کرتا رہتا ہے۔

سنہ 2013 میں گوا میں اس تنظیم کا ایک کنونشن ہوا تھا۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر بے معنی نہ ہوگا کہ ہندو جاگرتی منچ کی ایک حلیف تنظیم سناتن سنستھا کا ایک فرد کچھ مسلم اداروں پر بم پھینکنے کے سلسلے میں گرفتار ہے اور ایسے ہی افراد گووند پنسارے کے قتل کے سلسلے میں زیر تفتیش بھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کنونشن کا افتتاح نریندر مودی کے پیغام سے ہوا تھا جس میں کنونشن کے مقاصد کی کامیابی کا پیغام دیا گیا تھا۔ مودی اس وقت وزیر اعلیٰ گجرات تھے۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اسی کنونشن میں ایک کے وی سیتا رمیا نام کے شخص نے جو تقریر کی اس میں بھی اس نے گاندھی جی کے قتل کو سراہا ۔ انھوں نے گیتا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں ’’حق کی حفاظت کے لیے ہر دور میں پیدا ہوتا ہوں۔ جنوری 30 سنہ 1948 شری رام ناتھو رام گوڈسے کے روپ میں پرکٹ ہوئے اور انھوں نے گاندھی کی زندگی ختم کر دی۔‘‘ کے وی سیتا رمیا نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’گاندھی، دھرم دروہی اور دیش دروہی‘۔ اس کتاب میں انھوں نے مہابھارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’دھرم دروہیوں کو قتل کیا جانا چاہیے اور ان کو نہ مارنا ایک عظیم گناہ ہے۔‘‘

روی شنکر پرساد کو اس سلسلے میں آر ایس ایس اور دوسری ہندوتوادی تنظیموں سے گفتگو کر اس قسم کی سوچ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو روی شنکر پرساد کی عظمت محض گھڑیالی آنسو بن کر رہ جائے گی!

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined