کہتے ہیں کہ دنیا محبت کے اطراف میں گھومتی ہے۔ مگر کبھی کبھی سماج میںنفرت کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ محبت بھی اس کے سامنے سرجھکانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ آج ہمارے سماج اور سیاست میںنفرت کی جو آندھی چل رہی ہے ،وہ نئی نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ایسے دو رآئے ہیں کہ جب نفرت انسانوں کے دماغ پر اس طرح حاوی ہوگئی ہے کہ لگا کہ اس نے شایدمحبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیاہے۔ وہ ہٹلر کا جرمنی ہو، اسٹالن کا روس یاجنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت۔ مگر کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ر دعمل ہوتاہے۔ جب جب سماج اور سیاست میں نفرت بڑھی ہے، تب تب اس کی ہی کوکھ سے اسے شکست دینے والے پیدا ہوئے ہیں۔ ہر فرعون کے لئے خداکوئی موسیٰ پیداکرتا ہے۔
نفرت کا راون
آج ہندوستان کی سیاست میںنفرت کا بول بالا ہے۔ ہر گلی، ہر گائوں، ہرموڑ پر نفرت کا عفریت کھڑا قہقہہ لگارہا ہے اور اس کے سامنے محبت اور بھائی چارہ کی سیاست وتہذیب لا چار نظر آرہی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ نفرت کے اس راون کو شکست دینے کیلئے اب کوئی رام نہیںآئے گا۔ نفرت کی سیاست عروج پر ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والے ہندوستانی نفرت کے اس طوفان میں بہہ ر ہے ہیں۔ کہیں پہلو خان اس نفرت کا شکار بن رہاہے، تو کہیںجنید اس نفرت کے خنجر سے لہولہان ہے۔ کہیںایوب بھیڑ کی درندگی کا شکار ہے، تو کہیں کوئی معصوم دلت اس کا نشانہ بن رہا ہے۔
کوئی محفوظ نہیں
درندوں کی اس بھیڑ کو اکسانے والے مطمئن ہیں کہ بھیڑ’’دوسروں‘‘ کو نشانہ بنارہی ہے۔ جس طرح ہٹلر کے جرمنی میں عام جرمن مطمئن تھے کہ نازی نفرت کے نشانہ پرکمیونسٹ ہیں۔جمہوریت پسند ہیں۔لبرل ہیں اور پھر یہودی ہیں۔مگر ’’ہم ‘‘ ان میں سے کوئی نہیں، اس لئے ہم محفوظ ہیں۔ مگر نفرت کی اس آگ نے جرمنیوں کو بھی نہیںبخشا۔ لاکھوں مارے گئے۔ شہر کے شہر تباہ ہوگئے۔ آج ہمارے سامنے عراق ہے، شام ہے، لیبیا ہے ، جہاں نفرت کے طوفان نے چند برس میں ہنستے کھیلتے جگمگاتے شاندار شہروں کو کھنڈروںمیںتبدیل کردیا ۔ نفرت کی اس آگ میں نہ اقلیت محفوظ رہی نہ اکثریت۔
خطرے میں ہندوستان
آج آزادہندوستان اپنی تاریخ کے بدترین دورسے گزررہا ہے۔ آج خطرے میںمسلمان اور دلت نہیں ہیں۔ خطرے میں ہے پورا ہندوستان ۔ ہندوستان کا آئین،بھارت کی جمہوریت، انڈیاکا مستقبل ۔وہ آئین جسے جنگ آزادی کے جیالوں نے اپنے خون سے سینچاتھا۔ اور ایک’’سیکولر جمہوری ریپبلک‘‘ کی بنیار کھی تھی۔ آج اسی ریپبلک کی جڑوں میں نفرت کاتیز اب انڈیلا جارہا ہے۔
آج ہندوستان میں غریب غیرمحفوظ ہے ،دلت اور اقلیت غیر محفوظ ہے۔ کسان اپنے ہاتھو ںسے اپنی جان لے رہاہے۔ ملک کی کچھ جماعتیں اور لیڈر نفرت کی اس آگ میں سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ ہر موڑ پر کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔ محبت کرنے والوں میں مایوسی اور شکست خوردگی کا ماحول ہے۔ کیا نفرت کی یہ آگ ’’ہندوستان‘‘ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جلا کرخاک کردے گی؟ کیا اس اندھیری رات کی کوئی صبح نہیں ہوگی۔؟
وہ صبح کبھی تو آئے گی
تاریخ کا ہر طالب علم جانتاہے کہ رات کتنی بھی کالی کیوںنہ ہو، کتنی بھی لمبی کیوںنہ ہو۔ رات پھر رات ہے۔ اس اندھیرے کی کوکھ سے سورج جنم لیتا ہے اورمنٹوںمیں تاریکی کا نام ونشاں مٹادیتاہے ۔
آج ہندوستان بھی ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں اسے ایک ایسے ہی گاندھی کا انتظارہے۔ ایک ایسے گوتم ، نانک یا چشتی کا انتظار ہے کہ جو نفرت کے اس عفریت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر اسے چیلنج کرسکے۔ اہنسا اور پریم کے اس دیش کو احساس دلا سکے کہ نفرت اس کی آتما نہیںہے۔ بھارت کی آتما پریم اور پیار ہے۔ اپنی آتما کو نقصان پہنچا کر بھارت زندہ نہیں رہ سکتا ۔بھارت کو زندہ رکھنے کے لئے اس کی آتما کو واپس لوٹانا ہوگا۔ پریم اور محبت کی آتما ،گوتم،رام، کرشن ،نانک، چشتی، کبیر اور گاندھی کی آتما۔
ایک اور مہاتما کی تلاش
آج ہندوستان ایک دور اہے پر کھڑاہے۔ مجھے یقین ہے کہ آخر کار ہندوستان ایک صحیح راستہ اختیار کرنے اور نفرت کی سیاست کو شکست دینے میںکامیاب ہوجائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ نفرت کی یہ رات جو ابھی شروع ہوئی ہے، کتنی طویل ہوگی؟نفرت کا یہ عفریت اپنے راستے میںکتنی تباہی پھیلائے گا اور کتنے بے گناہوں کی جان لے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نفرت کی سیاست نے داعش کے نام پر کس طرح لیبیا، عراق اور شام کو تہس نہس کردیا۔ کیا ہمیں بھی صبح ہونے سے پہلے ایسے ہی دور سے گزرناہوگا؟یا پھر گاندھی کے اس دیش میں ایک اور گاندھی ابھرے گا۔ ایک اور مہاتما سامنے آئے گا اور نفرت کے اس عفریت کا خاتمہ کردے گا۔ اس سے پہلے کہ یہ ہمارے سماج ، ہماری سیاست اور ہماری جمہوریت کو تباہ وبرباد کردے۔
گوڈسے کی سیاست
قائد آسمان سے نہیں اترتے، عوام کے درمیان جنم لیتے ہیں۔ جن کے پیچھے عوام چلتے ہیں ،وہ بڑے قائد بن جاتے ہیں۔ کیا اہنسا کے اس دیش میں جنتا کوپانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے ہوش آئے گا؟ اور وہ نفرت کی سیاست کو ٹھوکر مار کر اہنسا ،محبت اور بھائی چارے کے راستے کوپھر سے اپنالیںگے۔ وہ راستہ جس کی نشاندہی اس ملک کے جنگ آزادی کے قائدین نے کی تھی۔ جس پر چل کر آج ہندوستان کا شمار دنیاکے طاقتورملکوں میں ہو نے لگا ہے۔ جس بھارت کی بنیاد گاندھی،نہرو، پٹیل اور آزادنے رکھی تھی۔ جس نفرت کے عفریت کو مہاتما گاندھی نے اپنے لہو سے شکست دی تھی۔گو ڈ سے کی نفرت کی سیاست گاندھی کے لہو کے سامنے سرنگوں ہوگئی تھی۔ اسی گوڈ سے کی سیاست کو ایک بار پھرناکام بنانے اور ہمیشہ کیلئے دفنانے کی ضرور ت ہے ۔نفرت کی سیاست نہ کبھی کامیاب ہوئی ہے نہ ہوگی۔ مگر اس کے لئے ہر ہندوستانی کو وہ راستہ اپنا نا ہوگا، جو باپو نے ہمیں دکھایاتھا اور جس پر چل کر ہم نے دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کو شکست دی تھی۔
بقول فیض احمدفیض
وہ لا ئیں لشکر اغیار واعدا ہم بھی دیکھیں گے
وہ آئیں تو سرمقتل تما شہ ہم بھی دیکھیں گے
یہ شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم
جو اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے
جو فرق صبح پر چمکے گا تارا ہم بھی دیکھیں گے
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز