دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک ہندوستان میں گزشتہ 4-5 سالوں کے دوران ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس میں کسی بھی معاملے کو ہندو اور مسلمان، ہندوستان اور پاکستان، جھوٹ کو سچ اورسچ کوجھوٹ کا رخ دے کر بڑی آسانی سے عام لوگوں کومشتعل کیا جا سکتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جس ملک کو کثرت میں وحدت کے طور پر متعارف کرایا اور دنیا بھر میں کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا آج اسی ملک کی بنیادی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس ماحول میں ایسے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے جنہوں نے کبھی مذہب یا ذات برادری کو لے کرکوئی تبصرہ تک نہیں کیا۔ موجودہ وقت میں جب عام انتخابات کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں، ایسے میں مٹھی بھر لوگ زعفرانی لبادہ اوڑھ کر سرخیاں بٹورنے اور مذہب خاص کا ٹھیکیدار بننے کے لئے ایسی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوشدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ پر بھی داغ لگ رہا ہے۔
چند روز قبل کی بات ہے جب مذہب خاص سے وابستہ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنی منافرت اور منافقت کا کھلا اظہار کرتے ہوئے جہاں اقلیتی طبقے کے خلاف جاری زہرافشانی کا سلسلہ تیز کر دیا وہیں کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والی معروف فلم اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر کو نشانہ بنا کر ان کی ازدواجی زندگی کو ’لوجہاد‘ کہہ کر تنازعہ بھڑکانے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر اس جھوٹ کو تیزی سے پھیلایا جانے لگا بالی ووڈ اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر کے شوہر پاکستانی نژاد مسلمان بزنس میں ہیں۔ غور طلب ہے کہ بالی ووڈ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد ارمیلا ماتونڈکر چند روز قبل ہی کانگریس پارٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ اداکارہ کے بلند حوصلے اور نیک نیتی پر مبنی ارادوں کی قدر کرتے ہوئے کانگریس نے جمعہ کو ہی انہیں ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی کی شمالی لوک سبھا سیٹ سے اپنا امیدوار بنانے کا اعلان کیا ہے۔ فلم اداکارہ اور ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کے اس فیصلے سے بھگوا بریگیڈ چراغ پا ہوگئی۔ اپنی کھسیاہٹ مٹانے کے لئے کچھ انتہا پسندوں نے سیاست اور بالی ووڈ کے قریبی رشتے کو ہندو اورمسلمان کارخ دے کرنئی بحث شروع کرنے کی مہم چلا دی مگر بھلا ہو سماج کے مہذب اورتعلیم یافتہ طبقے کا جس نے فوری طور پر حرکت میں آکر نفرت کی مہم کو آگ بھڑکنے سے پہلے ہی بے موت ماردیا۔
کانگریس پارٹی میں شامل ہونے کے موقع پر ارمیلا ماتونڈکر نے اپنے بیباک تبصرے میں کہا تھا کہ گذشتہ 4-5 سالوں کے دوران ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر بے شمار حملے ہوئے ہیں اور ایک فنکار کے طور پر میں اس طرح کے ماحول سے بہت مجروح ہوئی ہوں۔ اظہار رائے کی آزادی پر جتنے سوالیہ نشان لگائے گئے ہیں ان سب کا جواب دینے کے لئے وہ کانگریس میں شامل ہو رہی ہیں نہ کہ گلیمر یا انتخابی موسم کی وجہ سے۔
Published: 31 Mar 2019, 6:10 PM IST
مودی کی قیادت میں 5 سال کی حکومت کے دوران وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی نفرت کی سیاست کو روکنا ضروری ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے لئے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کر کے نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی پیسہ ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا تو ملک کی بڑی آبادی کو اس کا فائدہ ملتا۔ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی کوشش کر کے کوئی سوچتا ہے کہ وہ رک جائیں گی تو یہ غلط ہے، کیونکہ وہ اس زمین سے آتی ہیں جہاں چھترپتی شیواجی مہاراج جیسے بہادر پیدا ہوئے ہیں۔ وہ جو قدم بڑھاتی ہیں اس پر آگے ہی بڑھتی ہیں اور کسی بھی حال میں پیچھے نہیں دیکھتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جمہوری ملک ہے اور یہاں سب کو بولنے کی آزادی ہے لیکن آج کی صورتحال خطرناک ہے اور سوشل میڈیا پر جو بیان بازی کی جا رہی ہے وہ آپ کی سماجی اور مذہبی شناخت کو بتا رہی ہے جو معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔ ملک کے عوام کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جا رہا ہے، نفرت کا زبردست ماحول پیدا کیا گیا ہے اور لوگ مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
جمعہ کو کانگریس پارٹی سے لوک سبھا کا ٹکٹ ملنے کے بعد ارمیلا کے خلاف اس افواہ کو دائیں بازو کے رجحانات والے فیس بک اور واٹس اپ گروپوں میں بہت تیزی سے پھیلایا گیا۔ ان گروپوں میں ارمیلا اور ان کے شوہر کی تصویر کے ساتھ افواہ پھیلائی گئی کہ ’کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ ارمیلا نے ایک پاکستانی سے نکاح کیا ہے‘۔ زیادہ تر گروپوں میں ارمیلا ماتونڈکر کے خلاف بالکل ایک جیسا پیغام لکھا گیا ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں نے یہ پیغام کہیں سے کاپی کیا ہے۔ یہ معلومات عوامی طور پر دستیاب ہے کہ اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر کے شوہر محسن اختر میر کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا پاکستان سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ارمیلا ماتونڈکر سے 9 سال چھوٹے محسن ایک بزنس کرنے والے کشمیری خاندان سے آتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق محسن کے خاندان کا کڑھائی کا کام ہے لیکن وہ 21 سال کی عمر میں ممبئی چلے آئے تھے اور ماڈلنگ انڈسٹری میں اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی۔سال 2007 میں’مسٹر انڈیا مقابلہ‘ میں بھی محسن نے حصہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ سال 2009 میں آئی بالی ووڈ فلم ’لک بائی چانس‘ میں بھی محسن اختر میر کا ایک چھوٹا سا رول تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ سال 2014 میں فیشن ڈیزائنر منیش ملہوترا کی بھتیجی کی شادی میں ارمیلا اور محسن کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ 3 مارچ 2016 کو ارمیلا اور محسن ایک بہت سادہ تقریب میں چنندہ لوگوں کی موجودگی میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ارمیلا کے شوہر محسن اختر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شادی کے بعد ارمیلا ماتونڈکر نے نہ تو مذہب بدلا ہے اور نہ ہی اپنا نام۔ ارمیلا کے بارے میں پہلے یہ بھی افواہ پھیلائی جا چکی ہے کہ وہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی بھتیجی ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی تھی۔ یہ توایک چھوٹی سی مثال ہے جس میں ایک جوڑے کی ازدواجی زندگی کومتنازع بنانے کی سازش کی گئی ہے ایسے کئی معاملے ہیں جنہیں ’ہندو اور مسلمان‘ کا رخ دے کر لوگوں کے درمیان نفرت پھیلا کر ایک دوسرے کو لڑانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں جہاں سماج کوتقسیم کرنے والے کچھ لوگ ہیں جوہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے مگرتمام سازشوں کے باوجود سماج کو متحد رکھنے والے لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو تقریباً ہر سازش کو ناکام کر کے ایک دوسرے کومتحد رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
Published: 31 Mar 2019, 6:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Mar 2019, 6:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز