راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ذہنیت اور اس کے نظریات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ پورے ملک میں ’ہندوتوا‘ کا پرچم بلند کرنے کے لیے پرعزم آر ایس ایس کے دل میں نہ ہی مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی عیسائیوں کے لیے۔ جمہوری ملک ہندوستان کو ’ہندو استھان‘ بنانے کے لیے وہ بہت منصوبہ بند طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور اب تو مسلمانوں سے محبت کرنے کا بھی ڈھونگ کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ ویسے مسلمانوں کے درمیان اپنی گرفت بنانے اور ان کا ذہن پراگندہ کرنے کی کوششیں تو کافی پہلے سے سویم سیوکوں نے شروع کر دی ہیں لیکن گزشتہ ہفتہ جب آر ایس ایس نے اپنے ’یومِ تاسیس‘ یعنی وجے دشمی کی تقریب میں ہومیوپیتھ ڈاکٹر منور یوسف کو مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت دی، تو ایسا ظاہر کیا جانے لگا جیسے سویم سیوک مسلمانوں سے محبت کرنے لگے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس نے اپنی 92 سالہ تاریخ میں کبھی بھی مسلمانوں کو وجے دشمی کے موقع پر کیے جانے والے ’شستر پوجا‘ میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو نہیں کیا، لیکن آج ایک غیر معروف مسلم شخص کو اس تقریب میں بلانا مسلمانوں سے محبت کا ثبوت کیسے ہو سکتا ہے۔ منور یوسف علاقائی لوگوں میں اپنی ڈاکٹری کی وجہ سے مشہور ہوں گے لیکن مسلم طبقہ میں ان کی یقینا کوئی شناخت نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب محترم یوسف سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ اور ان کے چچا کافی پہلے سے آر ایس ایس سے رشتہ رکھتے ہیں۔ گویا کہ ایک اور ’مسلم نام‘ کا استعمال مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس نےمسلمانوں سے نام نہاد قربت ظاہر کرنے کے لیے ایسا مسلم چہرہ منتخب کیا جس کا تعلق بوہرہ طبقہ سے ہے، یعنی ان کی تعداد انتہائی کم ہے اور اصل دھارے کی مسلم سرگرمیوں سے وہ خود کو دور ہی رکھتے ہیں۔
ویسے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے آر ایس ایس نے اس سے پہلے بھی کئی اقدام کیے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ کچھ کم فہم بے وقوف بن بھی جاتے ہیں۔ آر ایس ایس کے اس کام میں ظاہر ہے بی جے پی اس کا بھرپور تعاون بھی کرتی ہے۔ اس کی مثال مارچ 2016 میں منعقد ’عالمی صوفی کانفرنس‘ ہے جس کی بی جے پی حکومت نے خوب پذیرائی کی تھی اور ایسا ظاہر کیا تھا کہ اسلام صرف ’صوفی ازم‘ میں ہے اور بقیہ کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس تقریب میں خوب بھیڑ جمع کی گئی لیکن محمود مدنی، امام بخاری،توقیر رضا، جلال الدین عمری، ارشد مدنی، مفتی مکرم جیسے لیڈروں کو پوچھا تک نہیں گیا۔ محمد اشرف کچھوچھوی (صدر، آل انڈیا علماء و مشائخ بوڈ) کے ذریعہ اہتمام کردہ اس کانفرنس میں طاہر القادری اور کچھ دیگر علماء نے شرکت ضرور کی لیکن کانفرنس کا بظاہر کوئی ایجنڈا نظر نہیں آیا۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی نے تقریب کو مسلمانوں میں ’تقسیم کی سیاست‘ قرار دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے آر ایس ایس کی سرگرمی کا آغاز اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ 2002 کے گجرات فساد کو ہی لے لیجیے۔ بڑے پیمانے پر مسلم کشی کے بعد اسی سال دسمبر میں ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کا قیام عمل میں آیا۔ آر ایس ایس کے ذریعہ تشکیل کردہ اس تنظیم نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث ہو۔ یہ تنظیم محض ’مسلم نما‘ لوگوں کی تنظیم بن کر رہ گئی۔ آپ اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور فیس بک پیج پر چلے جائیے، ساری حقیقت کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔
2014 میں جب مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی اس کے بعد آر ایس ایس کی سرگرمی مسلمانوں کا ’ذہن‘ بدلنے یا پھر یوں کہیں کہ ’دھوکہ‘ دینے سے متعلق کافی بڑھ گئی۔ ایک طرف تو آر ایس ایس نے ہندوؤں کو ’ہندوتوا‘ کے نام پر متحد کرنا شروع کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو توڑنے کے لیے مسلم راشٹریہ منچ اور اس جیسے دوسرے اداروں کا استعمال کیا۔ اسی کوشش کے تحت 2015 میں مسلم خواتین سے ان کے بھائیوں کو ’راکھی‘ بندھوائی گئی۔ مسلم راشٹریہ منچ اس کے بعد ہر سال مسلم خواتین سے ہندو مردوں اور ہندو خواتین سے مسلم مردوں کو راکھی بندھواتی ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو ’ہندو‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے ہندو مذہب اختیار کرنے سے متعلق خبریں تو اکثر آپ تک پہنتی ہی ہوں گی، یہ سب آر ایس ایس کی منصوبہ بند کوشش کا ہی ایک حصہ ہے ۔
مسلمانوں کو ’بے وقوف‘ بنانے کی ایک اور کوشش دیکھ لیجیے جو اسی سال ہوئی تھی۔ 15 جون یعنی رمضان میں آر ایس ایس نے ایودھیا میں روزہ و افطار کی ایک تقریب منعقد کی جس میں گائے کا دودھ پلا کر روزہ کھلوایا گیا۔ اس تقریب میں اندریش کمار نے آر ایس ایس ذہنیت کو عام کرنے والی تقریر کی اور گئو کشی و تین طلاق کو اپنا موضوع بنایا۔ اس طرح کی تقاریب اور کوششیں آر ایس ایس کیرالہ، مہاراشٹر، اتر پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی زور و شور سے کر رہی ہے۔
اَب پھر لوٹتے ہیں آر ایس ایس کی آئندہ وجے دشمی کو ہونے والی ’شستر پوجا‘ تقریب کی طرف جس میں منور یوسف مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرنے والے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طرح یقین کے قابل نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے دل میں مسلمانوں کے لیے جگہ بن گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس سیاست میں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتی ہے اس لیے ’سیاسی داؤ پیچ‘ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ اسی کے تحت آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے رواں سال کے اپریل مہینے میں ’بوہرہ طبقہ‘ کے اہم لیڈر سیدنا مفدل سے ان کے ممبئی واقع گھر پر ملاقات کی تھی۔ چونکہ منور یوسف کا تعلق بھی بوہرہ طبقہ سے ہے اس لیے آر ایس ایس کے ’سیاسی داؤ پیچ‘ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گویا کہ آپ کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں، آر ایس ایس ملک کو ’ہندو استھان‘ بنانے کے اپنے منصوبے کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ دھوکہ اور فریب دینے میں ماہر ہے اس لیے مسلمانوں کو اس بات سے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ’شستر پوجا‘ میں مسلمان کو مہمانِ خصوصی بنایا گیا، بلکہ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ایک طرف آر ایس ایس دھوکہ اور فریب دے رہی ہے اور دوسری طرف مودی حکومت اپنے’جملوں‘ کے ذریعہ مسلمانوں کا دِل بہلا رہے ہیں۔
Published: 27 Sep 2017, 4:56 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Sep 2017, 4:56 PM IST
تصویر: پریس ریلیز