سیاسی

راجستھان: بی جے پی کی ڈھولک پھوٹ چکی ہے... اعظم شہاب

کہاں تو سچن پائلٹ کے ذریعے کانگریس کے طیارے میں سوراخ لگانے کی کوشش ہو رہی تھی اور کہاں حالت یہ ہے کہ بی جے پی کو خود اپنی ہی لنگوٹی نہیں سنبھالی جا رہی۔

<div class="paragraphs"><p>کانگریس اور بی جے پی کا پرچم، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

کانگریس اور بی جے پی کا پرچم، تصویر سوشل میڈیا

 

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے بعد جب یہ کہا جانے لگا تھا کہ آنے والے پانچ ریاستوں کے انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کو بی جے پی اب نہیں روک پائے گی تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ مشورہ یہ دیا جا رہا تھا کہ کرناٹک کی جیت سے کانگریس کو بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے اثرات مدھیہ پردیش راجستھان جیسی ریاستیں قبول نہیں کریں گی۔ کرناٹک جنوب کی ریاست ہے اور جنوب میں یوں بھی بی جے پی کمزور ہے، لیکن چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش و راجستھان جیسی ریاستیں جنہیں ’کاؤ بیلٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، وہاں بی جے پی بہت مضبوط ہے جہاں اسے ہرانا مشکل ہوگا۔ لیکن اب جبکہ پانچ ریاستوں میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے، تو قومی میڈیا پر بھی دبی زبان میں کانگریس کی برتری و کامیابی کی پیشین گوئی شروع ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پیشین گوئی کے ساتھ ہی ’مودی لہر‘ کا بھی جھن جھنا بجایا جا رہا ہے، لیکن چونکہ اب لوگ خبروں اور اشتہار ات کے فرق کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں اس لیے بی جے پی کا یہ داؤ بھی ناکام جا رہا ہے۔

Published: undefined

راجستھان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ سچن پائلٹ وہاں کانگریس کی کامیابی کے طیارے کے پرواز میں رخنہ ڈالیں گے۔ قومی میڈیا پر تو یہ اتنے وثوق سے کہا جاتا تھا گویا سچن پائلٹ نے خود چینل والوں کو اس سے آگاہ کیا ہو۔ اس کے ذریعے کوشش یہ تھی کہ سچن پائلٹ کی ناراضگی کو اچھال کر کانگریس میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ لیکن یہاں بی جے پی یہ بھول گئی کہ اگر اس کے پاس ایک خود ساختہ ’چانکیہ‘ ہیں تو راجستھان میں کانگریس کے پاس اشوک گہلوت ہیں جنہیں ان کے مخالفین بھی ’جادوگر‘ کہتے ہیں۔ اس جادوگر نے بی جے پی کی اس چال کو بھانپتے ہوئے سچن پائلٹ کی ناراضگی کو کچھ یوں دور کیا کہ اس کا سائیڈ افیکٹ بی جے پی میں وسندھرا راجے سندھیا کی نارضگی کی شکل میں جم کر ظاہر ہو رہا ہے۔ کہاں تو کوشش تھی سچن پائلٹ کی ناراضگی کو کیش کرنے کی اور کہاں خود کے ہی گھر کی چنگاری شعلہ بن گئی۔

Published: undefined

راجستھان میں ابھی کانگریس نے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری نہیں کی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ 18 یا 19 اکتوبر کو کانگریس کی پہلی لسٹ آ سکتی ہے۔ جبکہ بی جے پی نے اپنے 41 امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے جن میں 7 ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہیں۔ یعنی مدھیہ پردیش کی ہی طرح راجستھان میں بھی بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس نے اپنے ان ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے جن کے سہارے وہ مرکزی اقتدار کی جنگ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ چونکہ یہ پانچ ریاستوں کے انتخابات 2024 کے عام انتخابات کے سیمی فائنل کی مانند ہیں، اس لیے بی جے پی نے سیمی فائنل جیتنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی ہے، لیکن اس پوری طاقت کے باوجود مدھیہ پردیش کی ہی مانند راجستھان سے بھی اس کی زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ یہاں ہم ہوا اکھڑنے کا لفظ اس لیے بھی استعمال نہیں کر سکتے کہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی ہوا بن ہی نہیں سکی۔

Published: undefined

بی جے پی کے لوگ اپنی پارٹی کو سب سے زیادہ نظم و ضبط کی پارٹی کہتے نہیں تھکتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظم و ضبط کی قلعی راجستھان میں خود اس کے اپنے ہی لیڈر اتار رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارٹی کی جانب سے جسے بھی امیدوار بنایا جاتا، ٹکٹوں کی آس لگائے دوسرے لوگ خاموش ہو جاتے اور پارٹی کے فیصلے پر لبیک کہتے، لیکن یہاں تو باقاعدہ بغاوت شروع ہو گئی اور ایسی بغاوت کہ ٹکٹوں کی امید لگائے ہوئے لوگ آزادانہ طور پر انتخاب لڑنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر الور ضلع کے تجارا حلقہ اسمبلی سے بی جے پی نے اپنے ممبر پارلیمنٹ بابا بالک ناتھ کو میدان میں اتارا۔ جبکہ یہاں سے بی جے پی کے سابق ممبر اسمبلی مامن سنگھ ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ بابا جی کے نام کا اعلان ہوتے ہیں مامن سنگھ نے بغاوت کا بگل بجاتے ہوئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔ پارٹی نظم و ضبط کا تقاضا تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایک سابق ممبر اسمبلی ایک موجودہ ممبر پارلیمنٹ کے سامنے خاموش رہتا، لیکن یہ تو اس صورت میں ممکن ہے نا جب نظم و ضبط کی پاسداری کے دعوے کی کوئی زمینی حقیقت بھی ہو۔ جب سب کچھ جھوٹ اور مکاری پر مبنی ہو تو پھر اطاعت و فرمانبرداری کی بھلا کہاں گنجائش باقی رہتی ہے۔

Published: undefined

ایساہی کچھ معاملہ وسندھرا راجے سندھیا کا بھی ہے کہ ان کے حامیوں نے ابھی سے ہی بغاوتی تیور دکھانا شروع کر دیا ہے۔ جئے پور کو وسندھر راجے کا قلعہ کہا جاتا ہے جہاں اسمبلی کی کل 19 سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 8 شہری سیٹیں ہیں جبکہ 11 سیٹیں دیہی علاقوں کی ہیں۔ ان 8 شہری سیٹوں میں سے 2 سیٹوں پر پہلی لسٹ میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ دونوں سیٹیں ودیادھرنگر اور جھوٹ واڑہ کی ہیں جہاں وسندھرا راجے سندھیا کے حامیوں کو ٹکٹ نہ دے کر نئے چہروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ ودیادھر نگر سے سابق نائب صدر بھیرو سنگھ شیخاوت کے داماد اور موجودہ ایم ایل اے نرپت سنگھ راجوی ٹکٹ کی توقع لگائے ہوئے تھے کہ ان کی جگہ پر ممبر آف پارلیمنٹ دیا کماری کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ اسی طرح جھوٹ واڑہ اسمبلی سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ کرنل راج وردھن سنگھ کو میدان میں اتار دیا گیا، جبکہ یہاں سے سابق وزیر راج پال سنگھ ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان دونوں سیٹوں سے ٹکٹ کے خواہشمند دونوں افراد وسندھرا راجے سندھیا کے کٹر حمایتی ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی میدان میں اتر سکتے ہیں۔

Published: undefined

یہ صورت حال یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ راجستھان میں بی جے پی کی ڈھولکیا بجنے سے قبل ہی پھوٹ چکی ہے۔ کہاں تو سچن پائلٹ کے ذریعے کانگریس کے طیارے میں سوراخ لگانے کی کوشش ہو رہی تھی اور کہاں حالت یہ ہے کہ خود اپنی لنگوٹی نہیں سنبھالی جا رہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ چاہے وہ مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان، بی جے پی بری طرح خوف کی شکار ہو چکی ہے اور کسی مقابلے سے قبل اگر خوف اس طرح حاوی ہو جائے کہ اپنے مرکزی سپہ سالاروں کو میدان میں اتارنے کی نوبت آ جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ حالت کتنی خراب ہے۔ دوسری جانب شہری و دیہی تمام علاقوں میں کانگریس کے بی جے پی پر واضح فوقیت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بی جے پی کے اندورنی سروے میں بھی سامنے آ چکی ہے کہ میڈیا کے ذریعے شب و روز کے پروپیگنڈے کے باوجود گہلوت حکومت کے خلاف اس قدر ناراضگی پیدا نہیں ہوئی ہے جس کی بی جے پی کو امید تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نئے لوگوں کو میدان میں اتار رہی ہے لیکن اس ماسٹر اسٹروک کے نتیجے میں اس کے پرانے لوگ اس سے دور ہو رہے ہیں یا پھر اس کے خلاف ہی خم ٹھونک کر میدان میں اتر رہے ہیں۔

(مضمون نگار کی رائے سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined