گجرات اسمبلی انتخابات کے مدنظر بی جے پی بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ریاست میں پارٹی کی بدتر حالت مزید بدتر نہ ہو جائے۔ لیکن بی جے پی لیڈران کو خود پر کنٹرول کہاں کہ وہ اپنی زبان بند رکھ سکیں۔ حد تو یہ ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی بھی اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ کانگریس لیڈروں اور پاٹیداروں و دلت طبقات کے خلاف تو اکثر وہ زہر افشانی کر ہی دیتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں انھوں نے پرجاپتی سماج کو ’چلّر‘ بتا کر اپنی محدود ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تقریباً دس روز پہلے انھوں نے ملاقات کرنے پہنچے پرجاپتی سماج کے ایک وفد کو ’چلّر سماج‘ کہہ دیا تھا جو اب اُن کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ پہلے سے ہی کئی چھوٹی بڑی برادریاں بی جے پی کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں، اب ’پرجاپتی سماج‘ نے بھی پوری ریاست، خصوصاً وڈودرا میں ’وجے روپانی اینڈ پارٹی‘ کی ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ دس دنوں میں کئی مقامات پر روپانی کے خلاف مظاہرے ہوئے اور پتلے بھی نذر آتش کیے گئے ہیں۔ 21 نومبر کو بھی پرجاپتی سماج نے وڈودرا میں زبردست مظاہرہ کیا اور روپانی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
دراصل بات 13 نومبر کی ہے جب پرجاپتی سماج کے اہم لیڈر ڈاہیا بھائی اپنی برادری کے کئی معزز لوگوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ وجے روپانی سے ملاقات کرنے کے لیے گئے تھے اور پرجاپتی سماج کے کسی فرد کو انتخاب میں ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن روپانی نے بلاجھجک نہ صرف انھیں ’چلّر سماج‘ کہہ دیا کہ بلکہ وضاحت بھی کر دی کہ پرجاپتی سماج تو ’پرچونی‘ ہے، ایسے پرچونی سماج کو ٹکٹ نہیں دے سکتے۔ روپانی کا یہ بیان جہاں ان کی محدود ذہنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف ایسے طبقہ کو خوش رکھ سکتے ہیں جو آبادی میں زیادہ ہوں۔انھیں شاید احساس نہیں کہ اگر کم آبادی والی سبھی برادریاں متحد ہو گئیں تو بی جے پی کی شکست یقینی ہو جائے گی،اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاٹیدار، دلت اور کئی پسماندہ طبقات نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کا عزم بھی کر لیا ہے۔ جہاں تک پرجاپتی سماج کی بات ہے، ڈاہیا بھائی نے روپانی سے ملاقات کے بعد ہی ان کے خلاف مظاہرہ شروع کر دیا اور اس سماج سے متعلق اہم لیڈروں نے کہہ دیا ہے کہ جب تک معافی نہیں مانگی جاتی تب تک روپانی کے خلاف دھرنا و مظاہرہ جاری رہے گا۔ لیکن روپانی نے اس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پرجاپتی سماج کے ذریعہ کیے جا رہے مظاہروں کی خبریں بھی میڈیا میں کم ہی آ رہی ہیں۔
Published: undefined
بہر حال، پرجاپتی سماج سے تعلق رکھنے والے افسران، سماجی کارکنان و لیڈران میں غصہ اور ناراضگی دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور وہ دھرنا و مظاہرہ میں ’روپانی مردہ باد‘ اور ’چلّر مانسکتا مردہ باد‘ کے خوب نعرے لگا رہے ہیں۔ مظاہرہ کرنے والوں میں سے کئی افراد کو پولس گرفتار بھی کر چکی ہے لیکن آبادی کم ہونے کے باوجود پرجاپتی سماج کے حوصلے بلند ہیں۔ انھوں نے اندر ہی اندر اپنے سماج کے لوگوں کو بی جے پی کے خلاف متحد کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ روپانی ’چلّر‘ لفظ کے استعمال کے بعد خود کو بری طرح پھنسا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن وہ معافی بھی کیسے مانگ سکتے ہیں، آخر اس سے ان کی اَنا کو ٹھیس جو پہنچے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جو بی جے پی لیڈران ششی تھرور کے ذریعہ حسینۂ عالم مانوشی چھلّر کو مزاحاً ’چلّر‘ لکھے جانے پر برہم ہو گئے تھے اور ان سے بار بار معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ ایک پورے سماج کو چلّر کہے جانے پر خاموش ہیں۔ یہ بات بھی غور کرنے والی ہے کہ اعتراض کے بعد ششی تھرور نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر معافی مانگتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’آپ نے بہترین کام کیا ہے مانوشی چھلّر!خوبصورت، اسمارٹ اور قابل دید۔ اگر آپ کی فیملی کے کسی بھی رکن کو تکلیف ہوئی ہے تو میں اپنی طرف سے عاجزی کے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔ دوسرے ہندوستانیوں کی طرح مجھے بھی آپ پر فخر ہے۔‘‘ اس ٹوئٹ کے بعد ٹائمز گروپ کے سربراہ ونیت جین نے اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حالانکہ وہ (مانوشی) ٹائمز گرل ہیں لیکن پھر بھی مجھے برا نہیں لگا۔ ہمیں ہلکے پھلکے انداز میں کیے گئے مزاح کے تئیں زیادہ روادار ہونے کی ضرورت ہے، حسینہ عالم 2017۔‘‘ اس ٹوئٹ پر چھلّر کا رد عمل بھی دیکھیے ’’درست فرمایا ونیت جین، آپ سے متفق ہوں۔ ایک لڑکی جس نے حسینہ عالم کا خطاب جیتا ہے وہ مزاحیہ جملوں سے ناراض نہیں ہوتی۔‘‘
کتنی حیرانی کی بات ہے کہ مخالف پارٹی کے کسی فرد کے ذریعہ کیے گئے ایک مزاح پر بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کے حوارین ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں لیکن کوئی اپنا پورے سماج کو ’چلّر‘ کہہ دیتا ہے تو نہ کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کی زبان سے اُف تک نکلتی ہے۔ یہ معاملہ بی جے پی کے دوہرے رویے کی طرف واضح نشاندہی کر رہا ہے۔ دراصل بی جے پی لیڈران صرف ’ہندوتوا‘ کے نام پر ووٹ بٹورنے کی سیاست کرنا جانتے ہیں، وہ صرف ہندوؤں کے شدت پسند طبقہ کو خوش کرنا جانتے ہیں۔ دلت، پسماندہ، اقلیت اور سماجی و معاشی طور پر کمزور طبقات کو وہ کسی توجہ کے لائق نہیں سمجھتے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز