اترپردیش سمیت بی جے پی کی متعدد حکمرانی والی ریاستوں میں ان دنوں آبادی کنٹرول سے متعلق قوانین بنانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ بھی پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اس سلسلے میں نجی بل لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بی جے پی اس معاملے کو جارحانہ انداز میں اٹھا رہی ہے۔ حالانکہ زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر اب تک غیر جانبدارانہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔ در اصل یہ مسئلہ بی جے پی کے اگلے ایجنڈے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آرٹیکل 370 اور رام مندر کے مسئلے ختم ہونے کے بعد یہ ایسا معاملہ ہے جس پر برسوں سے بحث کی جا رہی ہے۔ حالانکہ آبادی پر قابو پانے سے متعلق معاملہ بے حد حساس ہے اور بی جے پی کو اس پر آگے کئی طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Published: undefined
کورونا کے وبائی عہد میں مرکز کی مودی حکومت کے ساتھ ساتھ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی سرکاری مشینری کی ناکامی، کسانوں کے بنیادی مسائل سے عدم توجہی، روز بہ روز افزودہ مہنگائی اور عام آدمی کے روز مرہ کے مسائل سے عوام کا دھیان ہٹانے کے لیے بی جے پی نے ایک بار پھر ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے آبادی کنٹرول پالیسی کا شوشہ چھوڑ کر نفرت آمیز انتخابی لائحہ عمل کے ساتھ تقسیم کی سیاست شروع کرنے کے اشارے دے دیئے ہیں۔
Published: undefined
ویسے بھی بی جے پی کے پاس انتخابی مہم کے لیے کوئی ایسی اہم حصولیابی نہیں ہے جس کا ذکر کیا جاسکے۔ اس لیے ریاست کو مزید نفرت آمیز سیاست کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اب رام مندر کی سیاست بھی دم توڑ چکی ہے۔ اس لیے یوگی مہاراج پریشان ہیں کہ اترپردیش میں انتخابی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے کس لائحہ عمل پر کام کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ انتخابی مہم کے دوران سرکار کی حصولیابیوں پر بات کریں تاکہ ان کی کارکردگی عوام کے سامنے آسکے۔
Published: undefined
حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان میں قانون سازی کے ذریعہ آبادی پر قابو پانا ممکن نہیں ہے کیونکہ جب تک عوام میں بیداری پیدا نہیں کی جائے گی آبادی پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح جبری نس بندی کے ذریعہ آبادی کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ نس بندی مہم کے تحت نہ جانے کتنے لوگوں کی جبری نس بندی کی گئی مگر کیا ہندوستان میں آبادی پر قابو پایا جاسکا؟ یہی حال مجوزہ ’نئی آبادی پالیسی‘ کا بھی ہوگا۔
Published: undefined
قانون سازی سے زیادہ خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں عوامی بیداری موثر ثابت ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ اگر حکومت کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے گاﺅں در گاﺅں جاکر بیداری مہم چلائی جائے، کیونکہ شہروں سے زیادہ آبادی کا تناسب دیہی علاقوں میں ہے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ قانون سب کے لیے ہوگا تاہم اس کا مرکزی ہدف مسلمان ہیں اور اگر اسے نافذ کیا گیا تو سب سے زیادہ غریب طبقے کے لوگ متاثر ہوں گے۔
Published: undefined
اگر اترپردیش میں آبادی پر قابو پانے سے متعلق نیا قانون متعارف کرایا جاتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوںکہ عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ انتخابات کے پیش نظر ایک خاص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ یوپی لاء کمیشن کے ذریعہ تیار کیے گئے مسودے پر جب تنازعہ شروع ہوا تب یوگی حکومت نے کہا کہ وہ اس کے تحت ریاست میں مختلف برادریوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی بھی کوشش کرے گی اور جس برادری میں شرح پیدائش زیادہ ہے وہاں بیداری مہم شدت سے چلائی جائے گی۔
Published: undefined
بعض مبصرین کے مطابق اس توازن کا اشارہ مسلم برادری کی جانب ہے، جس کے بارے میں اکثر بی جے پی رہنما الزام تراشی کرتے رہتے ہیں کہ ان میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے اور اس پر سختی سے کنٹرول کی ضرورت ہے۔ جبکہ حالیہ کچھ سالوں میں آئے تمام سروے بھگوا الزام کی نفی کرتے ہیں۔
Published: undefined
عیاں رہے کہ یو پی کی بی جے پی حکومت نے آئندہ انتخابات کے پیش نظر یہ شوشہ چھوڑا ہے تاکہ آنے والے اسمبلی الیکشن میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ان کے مطابق اس مجوزہ قانون کا مرکزی ہدف مسلمان ہیں اور کوشش یہ ہے کہ انتخابات سے قبل ریاست کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جا سکے۔ انتخابات کے پیش نظر ہندو مسلم بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ تاثر قائم کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے اور بڑھ رہی ہے اور اسی وجہ سے یہ قانون لایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
حال ہی میں لکھنؤ سے دو مسلم نوجوانوں کی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے وابستگی کے الزام میں گرفتاری بھی اسی کوشش کا حصہ بتایا جارہا ہے اور یو پی میں یہ سب آئندہ انتخابات تک چلتا رہے گا۔ مسلمانوں کو اس بل پر بہت زیادہ تشویش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان تو پہلے سے ہی بہت سی سہولیات سے محروم ہیں اس لیے ان پر اس کا کم اثر پڑے گا اور دیگر وہ برادریاں زیادہ متاثر ہوں گی جو پسماندہ ہیں یا جن کا قبائل سے تعلق اور ان کے لیے حکومتی سطح پر روزگار جیسے مواقع پہلے سے محفوظ ہیں۔
Published: undefined
یوگی حکومت کی نیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ صرف اور صرف اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ سب سے زیادہ آبادی کا مسئلہ کم تعلیم یافتہ اور غریب سماج میں ہے جو حکومت کی امداد و رعایات سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر انہیں اس کے سبب روزگار اور امداد سے محروم کر دیا گیا تو اس سے سماج کا سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ متاثر ہو گا اور اس سے سیاست میں ان کی نمائندگی مزید کم ہو جائے گی جو پہلے سے ہی حاشیے پر ہے۔
Published: undefined
حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف بی جے پی کی ہم خیال وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس جیسی سخت گیر تنظیمیں ہندوستان میں ہندووں کے درمیان آبادی بڑھانے کی مہم چلاتی ہیں اور وشو ہندو پریشد نے بھی اس پالیسی پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ آبادی کم کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یو پی حکومت کے اس مجوزہ ڈرافٹ کے سامنے آنے کے فوری بعد اس کے خلاف بعض علاقوں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے کیونکہ اس مجوزہ قانون کو خواتین مخالف کہا جارہا ہے اس لئے کہ ملک میں بچوں کی پیدائش کے معاملات میں بیشتر خواتین پر دوسروں کی مرضی مسلط ہوتی ہے۔ اس لیے اگر انہیں اس کی وجہ سے حکومتی امداد سے محروم رکھا گیا تو پھر سب سے زیادہ وہی متاثر ہوں گی کیونکہ غریب سماج میں ایسی خواتین ہی حکومتی امداد کی سب سے زیادہ مستحق ہیں اور وہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula