ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت 1857 میں ختم ہو گئی، لیکن انگریزوں نے اگلی 9 دہائیوں تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ اس دور کے شروعاتی پچاس سالوں کے دوران برطانوی راج کے تئیں لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا اہم لفظ ’قانون و انتظام‘ تھا۔ اس کا پس منظر تھا انیسویں صدی کے نصف اول میں موجود انارکی والی حالت۔ وہ لفظ ’ہندوستان کو مہذب بنانے‘ کے برطانوی مشن کا منتر بن گیا۔
Published: undefined
گاندھی کا ’ہند سوراج‘ 1909 میں شائع ہوا تھا۔ تقریباً اسی وقت لوک مانیہ تلک نے ’سوراج‘ کو اپنا پیدائش حق اعلان کر دیا تھا۔ 1910 سے 1940 کی دہائیوں کے دوران ’سوراج‘ لفظ ملک کے دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ آزادی سے لے کر 1990 تک جادوئی منتر تھا ’روٹی، کپڑا اور مکان‘۔ غریبی ختم کرنے کے وعدے نے عوامی بحث کو متاثر کیا اور پس منظر میں تھا نوآبادیاتی راج کے دوران ہندوستان کی غربت۔ تب لوگوں نے مساوات پر مبنی فلاحی استیٹ کے نظریہ کی تعریف کی۔ 1990 کی دہائی سے ’دیو‘ (رام)، ’دیش‘ (نیشنلزم) اور ’دھرم‘ (ہندوتوا) نے مشہور تصور پر اسی طرح کا اثر ڈالا اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
Published: undefined
اب ہمیں ایک نئے منتر کی ضرورت ہے جو زندگی کی عام ضرورتوں سے الگ ہو، ایک ایسا منتر جو ہندوستان کو مستقبل کی شبیہ دکھائے۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اس منتر کا وسیع اثر ہو، اس کی تلاش ماضی قریب کے پس منظر میں کی جانی چاہیے۔ میرے خیال سے تین لفظ جو مستقبل میں ہندوستانی سیاست کو سمت عطا کر سکتے ہیں اور لوگوں سے زبردست حمایت حاصل کر سکتے ہیں، وہ ہیں- مساوات، صلاحیت اور تنوع۔
Published: undefined
مساوات کا نظریہ سماجی رنجش کو دور کرے گا، صلاحیت اب تک کے سب سے بڑے متوسط طبقہ کی امیدوں کے موافق ہوگی، تنوع ’یک رنگی ایمرجنسی‘ تھوپے جانے کو لے کر وسیع فکر کو دور کرے گی۔ جو لیڈر ان نظریات کو اثردار ڈھنگ سے ظاہر کریں گے اور نئے منتر و ان کے سیاسی کاموں کے درمیان ایک فطری رشتہ بنا پائیں گے، وہ آئندہ کچھ دہائیوں کے لیے ہندوستانیوں کا دل جیت لیں گے۔
(مضمون نگار گنیش دیوی ماہر تعلیم اور ثقافتی کارکن ہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined