بھارت جوڑو یاترا 60ویں دن 7 نومبر کو مہاراشٹر میں تقریباً تین گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔ لیکن دیگلور میں لوگوں کے جوش میں کسی طرح کی کمی دکھائی نہیں دی۔ کئی ہزار لوگ بھارت یاتریوں کا انتظار پورے جوش کے ساتھ کر رہے تھے۔ رات تقریباً 9.45 بجے جب ان لوگوں نے ریاست میں انٹری لی تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔
Published: undefined
دیگلور تلنگانہ سرحد سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی آبادی 60 ہزار کے آس پاس ہے۔ دیگلور ناندیڑ ضلع کی تحصیل ہے۔ کبھی یہ حیدر آباد کے نظام کا حصہ تھا۔ لیکن صرف یہیں کے لوگ یہاں نہیں تھے۔ نہ صرف ریاست کے دور دراز علاقوں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ ثقافتی اور علامتی نظریہ سے مہاراشٹر میں بھارت جوڑو یاترا کی شروعات کے لیے یہ جگہ بالکل معقول تھی۔ جغرافیائی، لسانی، مذہبی اور سماجی تنوع ظاہر کرنے والی یہ بالکل درست جگہ ہے۔ اس شہر کی ایک جانب تلنگانہ ہے۔ پہلے یہ جگہ آندھرا پردیش میں تھی۔ دوسری جانب کرناٹک ہے۔ ریاستوں کے لسانی بنیاد پر تشکیل نو کے وقت مراٹھی زیادہ بولنے والوں کی وجہ سے 1960 میں اسے مہاراشٹر میں شامل کر دیا گیا، لیکن یہاں کے لوگ تیلگو، کنڑ، اردو اور مراٹھی بولتے ہیں اور پوری اپنائیت و میل ملاپ کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں بہت کم آمدنی والے لوگ بھی رہتے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کی غریبی نظر نہیں آتی جس طرح دیگر مقامات پر دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مڈل کلاس طبقہ ہے لیکن یہ مبینہ طور پر غیر مدلل اور خواب دیرینہ والا طبقہ نہیں ہے۔ یہ کاروباری مرکز ہے لیکن ان کی اس قسم کی کاروباری ذہنیت نہیں ہے جیسی احمد آباد میں نظر آتی ہے۔ یہاں کی کثیر ثقافتی اور مذہبی برداشت کا بہت حد تک سہرا ’حیدر آباد تحریک آزادی‘ اور رامانند تیرتھ جیسے سَنت رویہ والے مظاہرین کو جاتا ہے۔
Published: undefined
شنکر راؤ چوہان کی نسل نے یہاں سیاسی قیادت اور وراثت کو سنبھال رکھا ہے۔ گزشتہ سال ناندیڑ نے شنکر راؤ کی جنم صدی منائی اور ان کے صاحبزادے اشوک علاقہ میں بھارت جوڑو یاترا کے ’کپتان‘ ہیں۔ ان کی مضبوط منصوبہ بندی اور نہ صرف کانگریس بلکہ مختلف سول سوسائٹی گروپس کے لوگوں کو یاترا سے جوڑنے کی ان کی کوششوں نے اسے صحیح طریقے سےنمائندگی والا بنا دیا۔
Published: undefined
راہل گاندھی بھی دیگلور کے کثیر مذہبی اور کثیر لسانی رنگ سے یکبارگی ہی جڑ گئے۔ بڑے اور عالیشان استقبال کے بعد انھوں نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی مورتی پر مالا پہنائی۔ شیواجی مہاراج نے ہی 17ویں صدی میں ہندوستانی برصغیر میں پہلی بار ’سوراج‘ کا قیام کیا تھا۔ مختصر خطاب میں راہل گاندھی نے لوگوں سے شیواجی مہاراج کو عزت دینے اور ان کے اقدار پر چلنے کی گزارش کی۔ پھر وہ 10 کلومیٹر دور گرودوارہ گئے۔ تقریباً تین ہزار لوگوں کے ساتھ مشعل یاترا میں بھی وہ شامل ہوئے۔ ان سب کے دوران تھکن کا کوئی نشان کہیں نہیں تھا۔ راہل کا دن تقریباً وسط شب کو ختم ہوا، اس کا مطلب علی الصبح تلنگانہ سے لے کر دیر شب تک مہاراشٹر میں وہ چلتے ہی رہے۔ کنارے کھڑے لوگ اور سماجی کارکنان اتنی رات گئے بھی اس طرح تر و تازہ نظر آنے اور مسکراتے رہنے کی راہل کی مضبوطی، صبر اور صلاحیت کا تذکرہ کرتے رہے۔
Published: undefined
راہل گاندھی ایک دن پہلے گرو نانک جینتی پر شام میں جس گرودوارہ میں گئے تھے، اگلے دن 8 نومبر کو اس سے ہی یاترا شروع ہونی تھی۔ میں نے کیرالہ اور کرناٹک میں یاترا کے دوران جو جنون دیکھا تھا، وہی یہاں دہراتا ہوا نظر آیا۔ یہاں بھی زبردست بھیڑ تھی جس میں سبھی لوگ ان کے قریب جانا چاہتے تھے۔ طلبا، مصنفین، سماجی کارکنان، مقامی دبنگوں سے ستائے ہوئے لوگ، کسان، چھوٹے اور متوسط درجہ کے صنعت کار، سبھی عمر کے طبقہ کی خواتین، فنکار، سبھی ان سے ملنے کو بے چین تھے۔ سب کی گزارش قبول کرنا تو ممکن نہیں تھا، لیکن جو بھی ان سے ملا اس کی باتیں انھوں نے سنیں اور وہ بھی ’گرو‘ یا ’سبھی چیزوں کی جانکاری والے راہنما‘ کا دِکھاوا کیے بغیر ہی۔ وہ ان لوگوں کی ’من کی بات‘ پر رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔ ان کا خود پر فوکس کم ہی تھا، اور نہ ہی وہ کیمروں کے اپنے پاس آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ وہ راہل گاندھی نہیں تھے جیسا کہ کئی لوگ امید کر رہے تھے۔ بی جے پی کی ٹرولنگ آرمی اور مین اسٹریم میڈیا نے تنظیمی طور پر ان کی جو مبینہ ’پپو‘ والی شبیہ بنا رکھی ہے، وہ ہوا میں اڑ گئی۔ اس کی جگہ ہزاروں لوگ انھیں فکرمند، ہمدرد اور بغیر تھکے سننے والے و کمیونکیٹر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
(کمار کیتکر سابق مدیر اور کانگریس سے راجیہ سبھا رکن ہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز