پٹرول-ڈیزل کی قیمت اگر کسی دن نہ بڑھے تب ہی وہ خبر ہے، ورنہ قیمتیں روز ہی بڑھ رہی ہیں۔ مارچ کے آخری اور اپریل کے پہلے ہفتے کے درمیان 15 دنوں میں ہی ان کی قیمتیں 13 بار بڑھ چکی ہیں۔ دیگر چیزوں کی قیمتوں کی رفتار بھی کم و بیش یہی ہے۔ جب آن لائن یا آف لائن شاپنگ کرنے جاؤ، نئی قیمت سامنے آ جاتی ہے اور بل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مٰں گوا کے ایک وزیر کا یہ بیان مضحکہ خیز ہو نہ ہو، زخم پر نمک چھڑکنے جیسا تو ہے ہی۔ وزیر محترم نے کہا کہ پٹرول-ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کی شکایتیں کرنے کی جگہ لوگوں کو سرکاری سبسیڈی سے ملنے والی الیکٹرک گاڑیاں خریدنی چاہئیں۔ ایسے میں ایک مشہور قصہ یاد آنا فطری ہے۔ فرانس کی آخری رانی میری اینٹونیٹ سے جب کہا گیا کہ لوگ پریشان ہیں اور کھانے کو روٹی نہیں ہے، تو اس نے لوگوں کو کیک کھانے کی صلاح دی۔ ویسے فرانسیسی انقلاب کے پیدا ہونے میں اس قصے نے اہم کردار نبھایا تھا۔ آج اپنے یہاں اس ضمن میں روٹی نہیں ہے، تو مذہب، وہ بھی ہندوتوا کی گھٹی پلائی جا رہی ہے۔
Published: undefined
یہاں لوگ مہنگائی سے روزانہ نبردآزما ہیں، لیکن مشتعل نہیں ہو رہے۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ یہ وجہ ہے ہندوتوا پر زور۔ اس کے لیے روزانہ نئے نیریٹیو سامنے لائے جا رہے ہیں۔ حجاب، دھرم سنسد، گاندھی-نہرو کی غلطیاں وگیرہ پر روزانہ ہی کوئی نہ کوئی میسج، ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں۔ کئی فرضی ویڈیو بھی چل جاتی ہیں کہ فلاں جگہ کس طرح مسجد سے اسلحے ملے، فلاں مولانا غلط بیانی کر رہے ہیں، فلاں جگہ بھگوا پرچم لہرا دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے رہنے کی کوشش ہوتی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی تمام قسم کی مشکلات سے ملک کو نکالنے کی کوشش میں دن رات میں 16 گھنٹے تک لگے ہیں۔ غریبوں کے درمیان سرکاری فلاحی منصوبوں کو خاص طور سے آگے کر دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
لیکن اس کے معانی بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کے سابق قومی ترجمان سنجے جھا اس کی قلعی اس طرح کھولتے ہیں ’’پٹرول، ڈیزل، رسوئی گیس وغیرہ سے مودی حکومت نے ہماری آپ کی جیب سے 26 لاکھ کروڑ روپے ٹیکس کے طور پر نکال لیے۔ اس سے ہی مفت راشن، رہائش، اُجولا، کسان منصوبے وغیرہ میں پیسے لگائے گئے۔ لیکن اگر آپ دیکھیں تو یہ 100 لے کر 10 روپے دینے جیسا ہے۔‘‘ اور یہ بھی سوچیے، جنھیں ان سماجی فلاحی منصوبوں کا فائدہ مل رہا ہے وہ بھی پٹرول، ڈیزل، رسویئ گیس پر ٹیکس دے رہے ہیں۔
Published: undefined
مشہور و معروف ماہر معیشت سرینواس کھنڈیوالے بھی کہتے ہیں کہ ’مودی ہے، تو ممکن ہے‘ کا نیریٹیو بہت ہوشیاری سے چلایا جا رہا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ’لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ یہ اب بھی ممکن ہے کہ مودی کوئی چمتکار کر دیں گے۔‘ وہ حال کے یوپی انتخاب کے دوران کی ایک ویڈیو کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں ایک خاتون کہتی ہے کہ ہم نے ان کا نمک کھایا ہے۔ دراصل وہ مفت اناج کے ساتھ ملنے والے نمک-تیل کی بات کر رہی تھی۔ کھنڈیوالے کہتے ہیں کہ ’’یہ غریب کے دماغ میں گھسی ایک خاص قسم کی بات ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ عوامی نظامِ تقسیم (پی ڈی ایس) گوداموں میں اناج بہت زیادہ تھے اور گیہوں ٹیکس دینے والے لوگوں کی رقم سے مل رہا تھا۔ انھیں سچ مچ لگتا رہا ہے کہ ایسا اکیلے وزیر اعظم مودی کی وجہ سے ہی ممکن ہو پا رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
کھنڈیوالے ایک سروے سے منسلک رہے ہیں جس میں جن دھن اکاؤنٹ منصوبہ کے فائدوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے تحت کروڑوں لوگوں کے بینک اکاؤنٹ کھلوائے گئے۔ اس سروے کا مجموعی طور پر ریزلٹ یہی تھا کہ بینکوں سے لوگوں تک اس کے فائدے نہیں پہنچ رہے ہیں۔ کھنڈیوالے نے کہا کہ ’’سرکاری چینل جو دعوے کر رہے ہیں ان کے برعکس ہم نے پایا کہ بینک منیجر ان اکاؤنٹ والوں کو کسی بھی قسم کا قرض دینے کے تئیں شبہ میں تھے کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ آخر یہ پیسے لوٹائیں گے کیسے اور پیسے واپس نہ آئے تو آخر کار قصوروار تو بینک افسر و ملازمین ہی مانے جائیں گے۔ جو تھوڑے بہت قرض تقسیم ہوئے بھی، وہ سیاسی دباؤ میں کیے گئے۔‘‘
Published: undefined
اسی طرح لوگوں کے روزار بڑی تعداد میں گئے ہیں۔ دوبارہ روزگار پانا اب بھی چیلنج ہی ہے اور نئے بے روزگاروں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ یہ عام تجربہ ہے۔ انفراسٹرکچر اور ہائیوے کے کام ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں لیکن اب مشینوں کا جس بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اس میں پہلے کے تناسب میں روزگار کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ کھنڈیوالے ایک اور بات کی طرف دھیان دلاتے ہیں ’’یہ سب عارضی روزگار ہیں۔ حکومت اس بات کا کوئی جواب نہیں دے رہی کہ لوگوں کو مستقل روزگار کب سے اور کتنے ملیں گے۔‘‘
Published: undefined
انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ریٹائر کر چکیں سائنسداں ڈاکٹر سوما مارلا نے بھی حال میں ایک مضمون میں تفصیل سے بتایا ہے کہ بالآخر مار غریب پر ہی کس طرح پڑ رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ غریب ہی ہیں جو ٹیکس کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ مہنگائی کی مار کا بیشتر حصہ ان پر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی کم آمدنی کا زیادہ حصہ اس پر خرچ کرتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر ہم جو ٹیکس دیتے ہیں، وہ بالواسطہ ٹیکس کا حصہ ہے جو ایکسائز اور گڈس اینڈ سروسز پر جی ایس ٹی لی اجاتا ہے۔ بلاواسطہ ٹیکسز میں ویلتھ ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، امپورٹ ٹیکس، انکم ٹیکس اور دھنی-مانی لوگوں سے لیے گئے دیگر ٹیکسز ہیں۔ حکومت کو بلاواسطہ ٹیکس اب کم مل رہے ہیں جب کہ پٹرولیم مصنوعات سے ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
ویسے چیزوں کی قیمتوں میں جس طرح روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، اس کا اثر چارطرفہ ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس سے بچا ہوا ہو۔ یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ اسے محسوس نہیں کر رہے ہوں۔ بینک آف بڑودا میں چیف اکونومسٹ مدن سبنویس اسے اس طرح کہتے ہیں ’’جن کی ٹھیک ٹھاک آمدنی ہے، ان کا سیونگس تو کم ہوتا ہی جا رہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غریبوں اور عام لوگوں نے ہی نہیں ان لوگوں نے اپنے ویسے خرچ کم سے کم کر دیے ہیں جو ضروری یا لازمی نہیں ہیں۔ اور یہ کوئی آج نہیں ہوا ہے، کووڈ وبا پھیلنے سے پہلے سے ایسا ہو رہا ہے۔ تب ہی تو اشیائے صارف کی صنعت وبا سے پہلے بھی اچھا نہیں کر رہی تھی۔ ایسا روزگار کم ہونے کی وجہ سے تھا اور اب تو چیزوں کی بڑھتی قیمتیں بھی سا میں جڑ گئی ہیں۔ آپ دھیان دیں تو صنعتوں نے اپنے کو بچائے رکھنے کے لیے ایک اور راستہ نکال لیا ہے۔ بسکٹ کے پیکٹ پہلے سے چھوٹے ہو گئے ہیں۔ انھوں نے قیمت نہیں بڑھائی، لیکن پہلے جو پیکٹ 100 گرام کے ہوتے تھے اور 10 روپے میں ملتے تھے، اب اسی قیمت میں 40 گرام کے پیکٹ ملتے ہیں۔‘‘ خریدنے والے ٹھگا محسوس کرتے ہیں، لیکن مانتے ہیں کہ چلو، تھوڑا کم ہو گیا، چھوٹا ہے، پر مل تو اتنے میں ہی رہا ہے۔
Published: undefined
ٹھگے جانے کے اس احساس کے باوجود لوگ قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، روزانہ کے دیگر مسائل کے خلاف سڑکوں پر کیوں نہیں آ رہے! وائی سی ایم او یو اور ایم جی ایم یونیورسٹی میں وائس چانسلر رہے ڈاکٹر سدھیر گوہانے کہتے ہیں کہ ’’دقت یہ ہے کہ پارٹیوں میں بھی زمین پر اوپینین بنانے اور تنظیم کرنے والے اب نہیں ہیں۔ بڑے پیمانے پر کوئی کچھ نہیں کرنے والے۔ جب تک ایسے لوگ سامنے نہیں آئیں گے، لوگ کیسے اکٹھا ہوں گے۔مشہور و معروف ماہری معیشت سرینواس کھنڈیوالے کہتے ہیں ’’اپوزیشن پارٹی اپنے لیڈروں کی نجی وجوہات سے منقسم ہے۔ کویئ پارٹی آگے نہیں آ رہی۔‘‘ اور سچ تو یہی ہے کہ ٹکڑوں میں طاقت نہیں ہوتی!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined