اترپردیش کی راجدھانی لکھنو کے’شاہین باغ‘ یعنی گھنٹہ گھر (حسین آباد) کو اترپردیش حکومت نے پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف 2020 میں خواتین نے مظاہرہ کیا تھا، اس مقام پر اب ہرطرف صرف خاک ہی نظر آرہی ہے۔ دہلی کے شاہین باغ دھرنے سے متاثر ہوکر لکھنؤ کی خواتین نے 17 جنوری 2020 کی شام سے گھنٹہ گھر پر سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اترپردیش حکومت جو روز اول سے ہی سی اے اے مخالف تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی، اس نے اس دھرنا کو ختم کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا اپنایا مگر لکھنو کی ’شاہینوں‘ نے کے حوصلوں کے سامنے سبھی دم توڑ گئے۔
Published: undefined
خواتین کو قانون کا خوف دکھایا گیا اور دھرنے کے مقام پر پولیس کے ذریعہ مظاہرین کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی لیکن خواتین کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور زًبردست حمایت کی وجہ سے دھرنا لگاتار مضبوط ہوتا رہا بلکہ دو دن بعد 19 جنوری 2020 سے گھنٹہ گھر سے تقریباً 13 کلو میٹر دور گومتی نگرعلاقے میں واقع اجریاؤں میں خواتین نے سی اے اے کے خلاف دھرنا شروع کر دیا۔ پرانے لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر پر خواتین کے جمع ہو کر دھرنا شروع کرنے کی خبر سے انتظامیہ کے ہوش اڑ گئے تھے۔ چونکہ دہلی میں شاہین باغ کی تحریک زور شور سے جاری تھی، انتظامیہ کو خوف تھا کہ کہیں لکھنؤ ایک اور شاہین باغ نہ بن جائے۔
Published: undefined
اگر چہ گھنٹہ گھر پر پہلے دن صرف 25-30 خواتین ہی موجود تھیں لیکن انتظامیہ اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے سرگرم تھا۔ احتجاجی خواتین کا کہنا تھا کہ شاہین باغ (دہلی)، الہ آباد( روشن پارک) اور کانپور( محمد علی پارک) کا دھرنا بھی سی اے اے واپس ہونے کے بعد ہی ختم ہوگا۔
Published: undefined
اس بیان کے بعد پولیس مزید سرگرم ہوگئی۔ گھنٹہ گھر کی بجلی کاٹ دی گئی، خواتین نے موم بتیاں جلا کر اور موبائل کی روشنی میں رات بسر کی۔ سرد راتوں میں آگ جلانے کے لیے لائے گئے کوئلے پر پولیس نے پانی ڈال دیا۔ ان حالات میں 18 جنوری کی صبح ہونے تک پورے شہر میں خواتین کے دھرنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ امور خانہ داری میں مصروف رہنے والی خواتین نے بھی گھنٹہ گھر کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے بھی اپنا پہرہ سخت کر دیا اور دھرنے کی جگہ کو چاروں طرف سے گھیر دیا۔ حسین آباد جہاں شام ہوتے ہی تاریخی مقامات اور قابل دید روشنی دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی بھیڑ رہتی تھی وہاں اب پی اے سی اور آر اے ایف کی ٹکڑیاں فلیگ مارچ کرتی نظر آرہی تھیں۔
Published: undefined
اس کے باوجود حکومت کی تانا شاہی کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کرنے والے لوگوں کے آنے کا سلسلہ نہیں رکا تو انتظامیہ نے گھنٹہ گھر احاطے میں مردوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ مظاہرے میں شریک افراد کی پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کا بھی چالان کیا جانے لگا اور کئی لوگوں کو موقع پر حراست میں بھی لیا گیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سی اے اے مخالف خواتین کی بھیڑ ہزاروں میں تبدیل ہوگئی۔ سرد رات میں درجہ حرارت 7-8 ڈگری تھا لیکن پولیس نے گھنٹہ گھر پر شامیانے نہیں لگنے دیئے۔ اتنا ہی نہیں وہاں کھانے پینے کا سامان بھی جانے سے روکا جا رہا تھا۔ خراب موسم کے پیش نظر خواتین نے وہاں کچھ کمبل کا بندوبست کیا لیکن جیسے ہی کمبل گھنٹہ گھر پہنچے، پولیس نے انہیں چھیننا شروع کردیا۔ پولیس نے کمبل چھین کر اپنی گاڑیوں میں رکھ لیے۔ کمبل چھین کر لے جاتی پولیس کے پیچھے کمبل کے لیے دوڑتی خواتین کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جس کے بعد پولیس انتظامیہ کے اس غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کی گئی۔
Published: undefined
پولیس کی سختی کے باوجود خواتین نے 26 جنوری 2020 کو گھنٹہ گھر پر یوم جمہوریہ کی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، خواتین کا پروگرام کامیاب بھی رہا۔ یوم جمہوریہ کی صبح گھنٹہ گھر پر مظاہرین کا ایک بے مثال سیلاب امنڈ پڑا۔ صبح وہاں مظاہرین نے پرچم کشائی کی اور قومی ترانہ گایا۔ لیکن خواتین کی تحریک روک پانے میں ناکام انتظامیہ نے یوم جمہوریہ سے پہلے مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کردی تھیں۔ طلبا رہنما پوجا شکلا سمیت کئی مظاہرین کو 25 جنوری کو صبح حراست میں لے کر جیل بھیج دیا گیا۔ حالانکہ اس موقع پر پولیس کی بدسلوکی کو نظر انداز کرتے ہوئے خواتین نے گھنٹہ گھر پر موجود پولیس اہلکاروں کو پھول پیش کیے۔
Published: undefined
گھنٹہ گھر دھرنے کو بڑھتا دیکھ کر انتظامیہ نے سماجی کارکنوں اور مذہبی رہنماؤں کو نوٹس بھیج کر مظاہرے میں شامل نہ ہونے کی ہدایت دینا شروع کر دیا۔ پولیس انتظامیہ کی جانب سے لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق ڈپٹی وائس چانسلر پروفیسر روپ ریکھا ورما، رہائی منچ کے صدر محمد شعیب، میگسیسے ایوارڈ یافتہ سندیپ پانڈے، سابق آئی پی ایس ایس آر دارا پوری، مولانا سیف عباس اور ڈاکٹر کلب سبطین نوری کو مظاہرے میں شامل نہیں ہونے کے نوٹس بھیجے گئے۔
Published: undefined
گھنٹہ گھر پر دوماہ سے زیادہ چل رہے دھرنے کو ختم کرانے کے لیے 19 مارچ کو دوپہر دو بجے اچانک پولیس آدھمکی۔ پولیس اہلکاروں نے احتجاجی خواتین سے ان کا احترام چھینا اور وہاں خواتین کی جانب سے لگائے گئے عارضی ٹینٹ کو بھی پولیس نے تباہ کر دیا اس کے باوجود دھرنا جاری رہا۔ ایسے وقت جب اس دھرنے کو ختم کرانے میں سرکاری نظام پوری طرح ناکام ہوگیا تھا، اسی اثنا میں وزیر اعظم مودی کی جانب سے ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کر دیا گیا۔ اس پر بھی جب مظاہرین کمزور نہیں پڑے تب انتظامیہ نے بات چیت کا راستہ اپنایا اور خواتین کو کورونا کا خوف دکھا کر دھرنا ملتوی کرنے پر راضی کرلیا۔ خواتین سے وہاں سے جاتے وقت کہا کہ دھرنا ختم نہیں ہو رہا ہے بلکہ کورونا وائرس کے قہر کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیا جا رہا ہے۔ اس دوران مظاہرین کے ساتھ پولیس کا ’معاہدہ‘ بھی ہوا تھا کہ وبا کے بعد وہ اپنی جگہ واپس آسکتی ہیں۔
Published: undefined
گھنٹہ گھر سے جاتے وقت خواتین مظاہرین وہاں کی سیڑھیوں پر اپنے اسٹیج پر دوپٹے رکھ دیئے تاکہ دھرنا ختم نہ مانا جائے۔ انتظامیہ نے سمجھوتہ کیا کہ احتجاجی خواتین کا اسٹیج اور دوپٹہ نہیں ہٹایا جائے گا لیکن لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی انتظامیہ نے کووڈ۔ 19 کی صفائی کے نام پر خواتین کے ذریعہ چھوڑا اسٹیج اور دوپٹے وہاں سے ہٹا دیئے۔ اس کے علاوہ پولیس نے وہاں سے کچھ دوری پر اپنے کیمپ لگا دیئے لیکن اب گھنٹہ گھر پر ہی پولیس کیمپ لگا ہے اور اب وہاں ہر وقت پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ سیاحت کا مرکز ہونے کے باوجود گھنٹہ گھر پرعام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ گھنٹہ گھر پر مظاہرے کا ایک سال پورا ہوگیا ہے۔ گھنٹہ گھر کو پولیس نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے لیکن متنازعہ قانون کے مخالفین کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ گھنٹہ گھر تحریک میں’جھانسی کی رانی‘ کہی جانے والی عظمیٰ پروین کہتی ہیں کہ وہ اس سال بھی یوم جمہوریہ پر وہاں پرچم کشائی کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جس دن وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ کہا کہ سی اے اے پرعمل شروع ہو رہا ہے، اسی دن سے گھنٹہ گھر پر دوبارہ تحریک شروع ہو جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined