سپریم کورٹ نے کمال کر دیا، حالات کی حساسیت اور نزاکت کو دیکھتے ہوئے آدھی رات کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئر جج حضرات نے کرناٹک معاملے کی سنوائی صبح تک کر کے تاریخ رقم کر دی اور آج تو اس وقت کورٹ نے کمال کر دیا جب کرناٹک کے گورنر کے فیصلہ کو پلٹ دیا اور کہا کہ یدیورپا کو 15 دن میں نہیں بلکہ کل شام تک اپنی حکومت کی اکثریت ثابت کرنی ہو گی۔ ارے صاحب عدالت کا یہ فیصلہ آتے ہی لوگوں نے عدلیہ کی جو تعریف کرنی شروع کی وہ بھی کم کمال کی نہیں تھی۔ عدلیہ کی تعریف کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جوکل تک چیف جسٹس آف انڈیا کی مخالفت کر تے نہیں تھک رہے تھے۔ خیر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے اچھے فیصلہ کی تعریف کرنی لازمی ہے اور غلط بات کی تنقید کرنا فرض۔
Published: undefined
گزشتہ دو روز کے دوران جو کچھ سپریم کورٹ میں ہوا وہ قابل ستائش اس لئے ہے کیونکہ عدلیہ نے کچھ خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا عدلیہ کچھ ٹھیک کر سکتی ہے؟ جس جمہوریت میں پارٹی ارکان کو ایک ریسورٹ سے دوسرے ریسورٹ، ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاکر چھپانا پڑے، ان کو بند رکھنا پڑے، کیا وہاں کچھ ٹھیک ہونے کی امید ہے؟ جس جمہوریت میں وفاداریاں خرید و فروخت کی شئے ہواور منتخب نمائندہ بکنے کی چیز ہوں، وہاں کیا ٹھیک ہو سکتا ہے، اور کون ٹھیک کر سکتا ہے۔ جس جمہوریت میں منتخب ارکان کی وفادری انتخابی نتائج کے چند گھنٹوں کے بعد مشکوک یا تبدیل ہو جائیں تو پھر عدلیہ یا حکومت کیا کر سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو چھوڑ دیا جائے تو شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں ایسی صورتحال پیش آتی ہو۔ حکومت وفاداری تبدیل کرنے کے خلاف قانون سازی کرتی ہے اور جب ایسے معاملے سامنے آتے ہیں تو عدالتوں کے سابقہ فیصلوں کے حوالہ دے کر اقدام کو غلط اور صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کیا ان سے ابھی تک کوئی حل نکلا ہے۔ شاید نہیں۔
اب حالات کینسر کے مرض کی طرح خراب ہو چکے ہیں جہاں جسم کے متاثرہ حصہ کو جسم سے الگ کرنے اور کیموتھیریپی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک رائے ہو کر یہ فیصلہ لیں کہ جو سیاسی شخص جیتنے کے بعد اپنی وفاداری تبدیل کرتا ہے اس کو تاحیات چناؤ لڑنے کے لئے نااہل قرار دیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص اپنے نظریات اور اپنی پارٹی سے وفادار نہیں ہو سکتا تو وہ ان کے ساتھ کیسے وفادار ہو سکتا ہے جنہوں نے اس کو منتخب کیا ہے۔ سننے میں یہ ضرور عرب ممالک کے ان قوانین کی طرح غلط اور غیر انسانی نظر آئیں گے جس میں چوری کی سزا میں چور کا ہاتھ کاٹنا یا عصمت دری کے مجرم کو سنگ سار کرنا ہے، لیکن یہ بیماری اتنی سنگین اور لاعلاج ہوتی نظر آ رہی ہے کہ اس کے علاج کے لئے ایسے سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سنگین بیماری کی صورت میں اپنی صحت کو ٹھیک کرنے کے لئے جیسے ہم اپنے اوپر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں ویسے ہی ملک کی بیمار انتخابی سیاست کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ شاید خدا ہم پر رحم کر ے اور ان وفاداری تبدیل کرنے والے’آیا رام گیا رام‘ سے ملک کو بچائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز