اگلے ماہ راہل گاندھی کانگریس کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ وہ نہرو-گاندھی خاندان کے چھٹے فرد ہوں گے جو کانگریس کی 132 سالہ تاریخ میں پارٹی صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان سے قبل موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو آزادی سے پہلے کانگریس کے صدر رہے۔ جواہر لال نہرو آزادی کے فوراً بعد ملک کے وزیر اعظم بھی رہے اور پارٹی صدر بھی چنے گئے۔ پھر راہل کی دادی اندرا گاندھی وزیر اعظم اور کانگریس صدر رہیں۔ ان کے والد راجیو گاندھی بھی دونوں عہدوں پر فائز رہے۔ پھر جب سنہ 1998 میں کانگریس اقتدار سے باہر تھی تو ایسے مشکل حالات میں ان کی والدہ سونیا گاندھی نے کانگریس کی کمان سنبھالی اور اب جلد ہی راہل گاندھی اس عہدے پر فائزے ہونے والے ہیں۔
ظاہر ہے کہ کانگریس اور گاندھی خاندان دونوں کے لیے ہی یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ لیکن راہل جس کانگریس کی کمان سنبھالنے والے ہیں وہ کانگریس اب ان کے آبا و اجداد کے دور کی کانگریس نہیں بچی ہے۔ کانگریس اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ یوں تو اقتدار سے باہر کانگریس پہلے بھی رہی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اس کی حیثیت اتنی کم تر پہلے کبھی نہیں تھی جیسی اس وقت ہے۔ ریاستیں تو کم و بیش اس کے ہاتھوں سے پوری طرح نکل چکی ہیں۔ اقتدار سے باہر آنا اور پھر اقتدار حاصل کر لینا سیاست میں اتنا اہم نہیں ہے جتنا یہ کہ وہ دنیا ہی بدل گئی جس دنیا میں کانگریس کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔
اکیسویں صدی کا ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ایک عجیب و غریب نظریاتی ا تھل پتھل کی دنیا ہے۔ اکیسویں صدی نظریاتی طور پر مذہب اور تشخص کی سیاست کا دور ہے۔ ساری دنیا میں انتہا پسند قوم پرستی کا جنون سوار ہے۔ اس تیز رفتار بدلتی دنیا میں اب دولت کی ریل پیل ہے، دنیا میں اس قدر دولت پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی جیسی اس وقت ہو رہی ہے۔ ہمارے بچپن میں لکھ پتی ہونا بہت بڑی بات تھی، آج 100 کروڑ کی ملکیت بھی بڑی شئی نہیں ہے۔ لیکن دنیا کی اس کثیر دولت کا نصف حصہ محض 54 افراد کے قبضے میں ہے۔ یعنی رئیس اور عام انسان کے بیچ کی کھائی بہت بڑھ چکی ہے۔ پھر دنیا میں کمپیوٹر کے ذریعہ جو ’مصنوعی فکر‘ اور روبوٹ ٹیکنالوجی نے ایک نیا انقلاب بپا کیا ہے اس نے ساری دنیا میں بے روزگاری کا ایک سیلاب بپا کر دیا ہے۔
دوسری جانب اس صدی کا نوجوان جلدی میں ہے۔ وہ بے روزگاری کے اس بازار میں اپنے خوابوں کی تعبیر جلد از جلد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس عالم میں دنیا ایک لایقینی اوربے معنی خوف کا شکار ہے۔ شاید اسی لایقینی اور خوف نے دنیا کی نظریاتی بنیاد بھی ہلا دی ہے۔ اب وہ لبرل، سیکولر، سوشلزم جیسے الفاظ نئی نسل کو کھوکھلے لگے ہیں۔ یہی تو کانگریس کا نظریاتی سرمایہ تھا۔ راہل کو اس نئی صدی میں نہ صرف ایک سیاسی جنگ لڑنی ہے بلکہ ایک نظریاتی جنگ لڑ کر کانگریس کے کھوئے نظریاتی سرمایے کو پھر سے زندہ اور پائندہ کرناہے۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس نظر یاتی کش مکش میں دائیں بازو کی رجعت پرستی کا سیلاب ہے۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے اقتدار کی سیاست کرنے والے شاطر سیاستدانوں نے نفرت کی سیاست کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ لایقینی اور خوف کے ماحول میں ایسے شاطر سیاستداں مذہب کی بنیاد پر اکثریت کا ووٹ بینک بنا لیتے ہیں اور اقلیتوں کو دشمن کی شکل دے کر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان میں نہ صرف سنگھ کی ہندوتوا سیاست اپنے عروج پر ہے بلکہ کبھی موب لنچنگ تو کبھی فسادات جیسے ہتھکنڈوں سے اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے۔ آج ہندوستانی اقلیت بالخصوص مسلمان خوف کا شکار ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلم اقلیت ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی بھی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو پسماندہ اور خوف کا شکار رکھ کر ملک سہی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں راہل گاندھی کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ کانگریس ’سافٹ ہندو‘ کارڈ جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال نہ کرے۔
یہ وہ پس منظر ہے کہ جس پس منظر میں کوئی بھی شخص جلد کانگریس جیسی سیکولر اور لبرل پارٹی کی کمان سنبھالنے کی جلدی جرات نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن ان حالات میں راہل گاندھی کانگریس کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر سنبھالنے کو تیار ہیں۔ ان کی جرات کی داد دینی پڑے گی۔ کیونکہ نریندر مودی اور ان کے غلام میڈیا نے پچھلے تین برسوں میں خصوصاً راہل کی امیج مسخ کرنے میں ایک انتہائی منظم سازش کے تحت کام کیا ہے۔ راہل گاندھی کی ساکھ بگاڑنے میں باقاعدہ سینکڑوں کروڑ روپیوں اور ہزاروں افراد کی ٹیم کا تعاون رہا ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اب سے کچھ عرصے قبل خود راہل میں وہ سیاسی سوجھ بوجھ نظر نہیں آتی تھی جو ان کے خانوادے کا وطیرہ رہا ہے۔
لیکن پچھلے دو تین ماہ کے اندر ایک نئے راہل گاندھی نے جنم لیا ہے۔ راہل کے حالیہ دورہ امریکہ سے راہل کی امیج میں ایک اہم فرق پڑا ہے۔اب راہل ایک پختہ سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک سلجھے اور انتہائی مہذب سیاستدان کے طور پر ابھر کرسامنےآئے ہیں۔ آج کے راہل گاندھی اور چھ ماہ قبل کے راہل گاندھی میں زمین-آسمان کا فرق پڑ چکا ہے۔ وہ یقینا ایک لیڈر نظر آ رہے ہیں اور ایک ایسا لیڈر جس کی اپنی ذاتی فکر اور نظریہ ہے۔ راہل کے پاس ملک کی ترقی کی ایک اپنی ذاتی بصیرت ہے۔ وہ ہندوستان کی ’سافٹ پاور‘ اور اس کے ’مینوفیکچرنگ سیکٹر‘ کو بلندیوں تک لے جانے میں یقین رکھتے ہیں۔ ایسی فکر اور سیاست میں یقین رکھنے والے شخص کے ہاتھوں میں محض کانگریس ہی نہیں بلکہ ملک کی کمان بھی آنی ہی چاہیے۔
پھر راہل گاندھی جس وقت کانگریس کی صدارت اپنے ہاتھوں میں لیں گے اس وقت گجرات کے چناؤ اپنے عروج پر ہوں گے۔ گجرات میں ابھی سے راہل گاندھی نے نریندر مودی کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔ وہاں بی جے پی کے خلاف ایک سیلاب امنڈ پڑا ہے۔ وہ پٹیل ہوں یا پسماندہ ذاتیں یا پھر دلت ہوں یا گجراتی تاجر، گجراتی سماج کے کثیر طبقے نے مودی اور بی جے پی کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ ہر کوئی اتنا تو مان ہی رہا ہے کہ اگر بی جے پی نے گجرات میں سرکار بنائی بھی تو اس کی سیٹیں کافی کم ہو گئیں اور کانگریس کی سیٹیں کافی بڑھ جائیں گی۔
پچھلے بائیس سال سےمردہ ہو چکی گجرات کانگریس کو راہل اگر نئی زندگی دینے میں کامیاب ہو گئے تو بس صرف وہ کانگریسیوں کے دل کے سکون ہی نہیں بلکہ لبرل ہندوستان کے ہیرو ہو جائیں گے۔ دیکھتے دیکھتے ملک کی سیکولر اپوزیشن بھی ان کا ہاتھ تھام لے گی اور بس بطور کانگریس صدر اورایک نئے وزیر اعظم کے طور پر راہل گاندھی کو ہندوستان کو اس کے سیکولر محور پر واپس لانا ہوگا جو نہ صرف ان کے آبا و اجداد بلکہ خود ہندوستان کی صدیوں پرانی وراثت رہی ہے۔
یہ آسان کام نہیں ہے۔ لیکن راہل گاندھی نے اب اس کام کو کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ کروڑوں لبرل اور سیکولر ہندوستانیوں کی نیک خواہشات ان کے ساتھ رہیں گے اور ہندوستان ہندوتوا سیاست کے خلاف ان کی جنگ میں ان کا ساتھ بھی دے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined