یہ ہماری کم عمری کا ذکر ہے۔ ہمارے آبائی وطن الٰہ آباد میں ایک ہندو مہاسبھا کے سڑک چھاپ لیڈر تھے جن کا نام تھا مانا گرو۔ جب بھی انتخاب شروع ہوتے مانا گرو مسلم علاقے کے قریب چوک پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر کھڑے ہو جاتے اور بڑی جذباتی تقریر کرتے۔ ان کی اس جذباتی تقریر میں ہمیشہ صرف دو باتیں ہوتی تھیں۔ ایک تو وہ کانگریس اور نہرو خاندان کو ہر برائی کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ مثلاً وہ کہتے ارے گاندھی جی نے تو کہا تھا کہ آزادی کے بعد کانگریس پارٹی ختم کر دو لیکن نہرو کو اقتدا رپر قابض ہونا تھا اور کانگریس پر اپنے خاندان کی ملکیت قائم کروانی تھی اس لیے انھوں نے گاندھی کی ایک نہیں سنی۔ آخر میں وہ مسلمانوں کو برا بھلا کہتے اور ان کی تقریر ختم ہوتی تو گرو بڑے انداز سے فرماتے: ’’ارے مسلمانوں، اٹھاؤ اپنا پاندان، خاصدان و خاندان اور چلے جاؤ پاکستان‘‘۔
یہ ہماری کم عمری کا قصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ بال سفید ہونے کے بعد بھلا مانا گرو ہم کو کہاں یاد رہتے۔ لیکن 7 فروری کو جب وزیر اعظم نریندر مودی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بجٹ اجلاس کے دوران صدر جمہوریہ کی تقریر اور اپوزیشن پارٹیوں کو جواب دے رہے تھے تو مجھے بخدا اپنے مانا گرو بہت یاد آئے۔ کچھ وہی انداز، وہی مواد، وہی کانگریس کے اوپر پرانے مہاسبھائیوں جیسے اعتراضات۔ نہرو خاندان پر وہی جملہ کشی اور سردار پٹیل اور نہرو کو لے کر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر سنگھ اور مہاسبھا کا وہی خیال۔ یہ تمام باتیں مودی جی کی تقریر میں صاف نظر آ رہی تھیں۔ محض مودی جی نے مانا گرو کی طرح مسلمانوں کو پاکستان جانے کی نصیحت نہیں کی لیکن یہ خیال تو ان کے دل میں ہر وقت رہتا ہی ہے۔ باقی مودی جی کی 7 فروری کی تقریر اور الٰہ آباد والے مہاسبھائی مانا گرو کی تقریر میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ اور فرق ہوتا بھی تو کیوں ہوتا!
دراصل 7فروری کو پارلیمنٹ میں ملک کا وزیر اعظم نہیں بلکہ ایک مہاسبھائی یا سنگھ پرچارک اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ وہ آخر وہی تو بولے گا جو اس نے سنگھ کی شاکھاؤں میں اپنے گروؤں سے سیکھا ہے۔ اور سنگھ نہرو خاندان، کانگریس پارٹی اور مسلمانوں سے نفرت کے علاوہ کچھ اور سکھاتی ہی نہیں ہے۔ مودی جی نے چالیس برس سے زیادہ جو سیکھا ہےبس پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کروہی بول رہے تھے۔
لیکن افسوس صد افسوس ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک کا وزیر اعظم اس گھٹیا طرز کی تقریر کرے،! یہ ہم سب ہندوستانیوں کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم اپنی پارلیمنٹ کی تقریر میں اس سطح تک چلے کیوں گئے، انھوں نے جس زبان اور آداب کا اس روز استعمال کیا اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے! پہلی بات تو نریندر مودی جی کی ذات سے اسی قسم کی تقریر کی امید کی جا سکتی ہے۔ ’’ہم پانچ، ان کے پچیس، مجھ کو گجرات فساد پر اتنا ہی صدمہ ہے جتنا ایک کتے کے پلّے کے کار ایکسیڈنٹ میں مرنے کا صدمہ ہوتا ہے، قبرستان اور شمشان گھاٹ اور میاں احمد گجرات کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے‘‘ جیسے غیر پارلیمانی جملوں کا استعمال کرنے والا شخص الیکشن ریلی میں کیا پارلیمنٹ میں بھی ویسی ہی زبان استعمال کر سکتا ہےاور اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ نریندر مودی کی پارلیمنٹ کی تقریر دراصل ایک چناوی تقریر ہی تھی جو اس روز انھوں نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کی تھی۔ اس لئے وہ پارلیمنٹ میں بھی وہی زبان استعمال کر رہے تھےجو زبان وہ چناوی ریلیوں میں استعمال کرتے ہیں۔
تو کیا نریندر مودی واقعی جلد ہی لوک سبھا کا انتخاب کروانے والے ہیں! یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن مودی گھبرائے ہوئے ضرور ہیں۔ یونیورسٹی کی طلبا یونین سے لے کر راجستھان کے پارلیمانی و اسمبلی ضمنی انتخابات تک پچھلے دو ماہ سے بی جے پی تقریباً ہر سطح پر لگ بھگ تمام انتخاب ہار رہی ہے۔ مودی اسی وجہ سے گھبرائے ہیں۔ ان کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اگلی بار وزیر اعظم کی گدّی چھن سکتی ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کو مودی کا اصل چہرہ صاف نظر آنے لگا ہے۔ ملک سے روزگار اڑ گئے، کاروبار اور معیشت میں پچھلے ایک سال سے زبردست مندی چل رہی ہے، معیشت کی مجموعی شرح گھٹ رہی ہے، کارخانے اور دھندے بند ہو رہے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم نوجوان کو مشورہ دے رہا ہےکہ ا گر روزگار نہیں تو ’پکوڑے بیچو‘۔ شاید اب مودی سرکار پکوڑے بیچنے والے اسٹارٹ اَپ کو جلد ہی قرض دینے کی اسکیم بھی شروع کر دے گی۔
الغرض، سنہ 2014 میں نریندر مودی ہندوستانیوں کے لئے درخشاں امید بن کر ابھرے تھے۔ تین سال بعد ہندوستان میں موب لنچنگ جیسی منافرت کی سیاست کا تو شور ہے، نہ کوئی ترقی ہے اور نہ ہی کہیں ترقی کے کوئی آثار ہیں۔ ہندوستان مودی کی اصلیت کو پہچان چکا ہے تبھی تو ایک گجرات کے علاوہ بی جے پی ہر سطح پر انتخاب ہار رہی ہے۔ اسی لیے مودی جی گھبرائے ہوئے ہیں اور گھبراہٹ میں مودی اپنی اصلیت پر پوری طرح سے اتر آئے ہیں اور وہ اصلیت ہے ایک سنگھ پرچارک کی اور ایک مہاسبھائی کی۔ شاید اسی لیے 7 فروری کو پارلیمنٹ میں نریندر مودی کی تقریر سن کر مجھے الٰہ آباد والے مہاسبھائی ’مانا گرو ‘بہت یاد آئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined