کیفی اعظمی نے بابری مسجد انہدام کے بعد ’’دوسرا بن باس‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی اس میں یہ دو مصرعے بھی تھے: ’’دھرم کیا ان کا تھا کیا ذات تھی یہ جانتا کون، گھر نہ جلتا تو انھیں رات میں پہچانتا کون‘‘۔ اسی نظم میں یہ مصرعہ بھی ہے: ’’اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے‘‘۔ اپنی تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک جانے کتنی مرتبہ یہ نظم پڑھی گئی ہوگی اور آگے بھی پڑھی جاتی رہے گی۔ لیکن ہر بار یہ اپنے الگ ہی مفہوم میں نظر آتی ہے۔ اس کے تمام مصرعوں کو الگ الگ مفہوم کوئی اور نہیں پہنا رہا ہے بلکہ سنگھ پریوار سے وابستہ افراد اور ذمہ داران پہنا رہے ہیں۔ جب بھی اجودھیا میں یا کہیں اور رام چندر جی کے نام پر کوئی ایسی حرکت کی جاتی ہے جس سے مریادا پرشوتم کی بدنامی ہو تو یہ نظم چیخ چیخ کر کہنے لگتی ہے کہ’’اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے‘‘۔
ہم نے پہلے جملے میں جن دو مصرعوں کا ذکر کیا ہے وہ یو پی حکومت کے ایک اہم، متنازعہ اور دور رس فیصلے کے تناظر میں یک بیک منظر عام پر آگئے ہیں۔ حالانکہ صدر امت شاہ سمیت بی جے پی کے بیشتر رہنما اپوزیشن لیڈروں پر ذات پات کی سیاست کرنے کے الزامات عاید کرتے ہیں لیکن جب موقع ملتا ہے تو خود ذات پات کی سیاست میں ملوث جاتے ہیں۔ دھرم کا ٹھیکہ تو ان کے پاس ہے ہی، وقتاً فوقتاً ذات کا ٹھیکہ بھی انھی کے نام چھوٹتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے اتحاد کیا کیا کہ بی جے پی کی رات کی نیندیں اڑ گئیں۔ اس کو یہ اندیشہ ستانے لگا کہ دلتوں کا ووٹ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ گورکھپور اور پھولپور کی باوقار پارلیمانی نشستیں ہارنے کے بعد سے ہی بی جے پی میں یہ منتھن چل رہا تھا کہ اس اتحاد کو کیسے توڑا جائے۔ راجیہ سبھا انتخابات میں ایسا کھیل کھیلا گیا کہ دونوں پارٹیوں میں رنجش ہو جائے۔ لیکن جب پھر بھی وہ اس میں ناکام ہوئی تو اتحاد کو کمزور کرنے کے سلسلے میں غور و فکر کیا جانے لگا۔ لیکن جب اس بارے میں بھی کوئی کامیابی نہیں ملی یا کوئی فارمولہ ہاتھ نہیں لگا تو ایک بار پھر مریادا پرشوتم رام کو ہتھیار بنایا گیا۔ اس بار یہ ہتھیار دلتوں کے سب سے بڑے رہنما اور ملک کے آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر پر آزمانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی جیوتشی نے بی جے پی لیڈروں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ اس بار معاملہ ڈیولپمنٹ سے بننے والا نہیں ہے۔ کیونکہ مودی جی نے جس وکاس کا وعدہ عوام سے کیا تھا اس کا روئے مبارک تو ابھی تک کسی نے دیکھا نہیں۔ اس لیے ’’وکاس‘‘ کو تو اب ’’بکواس‘‘ سمجھ لیں اور ’’انایاس‘‘ ہی رام جی کو پھر اپنا لیں۔ اس بار انھیں ذرا مختلف انداز میں پیش کیا جائے۔ یعنی کوئی نیا پن لایا جائے۔ ’’شپتھ رام کی کھاتے ہیں، ہم مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کا نعرہ پرانا ہو گیا۔ اسے پیچھے کر دیا جائے اور تمام بڑے دلت لیڈروں کے گلے میں رام نام کا پٹکا ڈال دیا جائے۔ دلتوں کو اس گمراہی میں مبتلا کیا جائے کہ تمھارے بڑے لیڈر بھی تو رام نام جپتے رہے ہیں۔ تم رام سے کتنا بھاگو گے، ارے ہم تمھارے رہنماؤں کو ہی ’’رام‘‘ بنا دیتے ہیں۔ جب تمھیں یہ معلوم ہوگا کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو وہ تو رام جی کی پوجا کرتے تھے تو بھلا تم ہم سے بھاگ کر کہاں چھپ سکو گے۔
بی جے پی لیڈروں کی دلیل ہے کہ چونکہ امبیڈکر کے والد کا نام ’’رام جی امبیڈکر‘‘ تھا اس لیے امبیڈکر کا پورا نام ہوگا ’’بھیم راؤ رام جی امبیڈکر‘‘۔ حالانکہ ہندوستان میں اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام جوڑنے کی روایت بہت قوی نہیں ہے۔ کچھ مخصوص علاقوں میں ایسا ہوتا ہے، پورے ملک میں نہیں۔ البتہ عرب ملکوں میں اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام جوڑا جاتا ہے۔ اس بارے میں مایاوتی نے برجستہ سوال اٹھایا ہے کہ جب مودی کے نام میں ان کے والد کا نام دامودر داس نہیں لگا ہے تو پھر امبیڈکر کے نام رام جی کیوں جوڑا جا رہا ہے۔ بہر حال اب امید ہے کہ جلد ہی امبیڈکر کے مجسمہ کے ہاتھ میں جہاں دستور ہند کی کتاب ہے وہاں اب رامائن یا گیتا رکھ دی جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا بھگوا پٹکا بی آر امبیڈکر کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اب جہاں جہاں ان کے مجسمے نصب ہیں ان تمام کو بھی بھگوا رنگ میں رنگ دیا جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم ان کے گلے میں ایک بھگوا رومال ہی ڈال دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اور دلت لیڈر اور یادو لیڈر بھی، ڈھونڈے جائیں گے جن کے باپ دادا میں سے کسی کے نام میں لفظ ’’رام‘‘ لگا ہوا ہوگا۔ ایسے جو بھی نام ملیں گے ان تمام کے ناموں کے درمیان میں ’’رام جی‘‘ کو بٹھا دیا جائے گا۔ حالانکہ یو پی حکومت نے اس بارے میں امبیڈکر کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ کیونکہ انھوں نے تو اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔ وہ ہندو نہیں رہ گئے تھے۔ بلکہ وہ بودھ ہو گئے تھے اور بودھوں کے یہاں رام جی نہیں بلکہ گوتم بدھ مذہبی پیشوا ہیں۔ لیکن بی جے پی کو اس سے کیا۔ اسے تو بس رام جی کا پٹکا اوڑھا کر ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ سو اس نے یہ ترکیب نکال لی ہے۔ رام کے نام پر دھوکہ دہی کرنے والوں کے لیے ملک میں بہت پہلے سے ہی ایک نعرہ موجود ہے۔ یعنی ’’رام نام جپنا، پرایا مال اپنا‘‘۔ ہم نے اس نعرے میں ہلکی سی تحریف کر دی ہے۔ یو پی حکومت کے اس متنازعہ فیصلے کی روشنی میں اسے یوں پڑھا جانا چاہیے ’’رام نام جپنا، پرایا نیتا اپنا‘‘۔
ویسے اس کی امید کم ہے کہ دلتوں پر چلایا گیا یہ ہتھیار اپنا اثر دکھائے گا۔ لیکن اس سے ایک بات ایک بار پھر واضح ہوئی ہے کہ بی جے پی ووٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ بہار اور مغربی بنگال میں فسادات تو شروع ہی کرا دیے گئے ہیں۔ جوں جوں 2019 کے انتخابات قریب آئیں گے فسادات کی آگ دوسرے مقامات تک پھیلتی جائے گی۔ اگر اپوزیشن اور عوام نے بی جے پی کے پینترے کو نہیں سمجھے تو تباہی ایک بار پھر ملک کا مقدر بن جائے گی۔ فی الحال ہمیں تو یہ نعرہ پسند آیا ہے کہ ’’رام نام جپنا، پرایا نیتا اپنا‘‘۔
Published: 01 Apr 2018, 10:13 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Apr 2018, 10:13 AM IST
تصویر: پریس ریلیز