عام حالات میں وزیر اعظم مودی کے پاس بہت سارے کام ہوتے ہیں مثلاً انتخابی تقریریں اور غیر ملکی دورے وغیرہ لیکن کورونا نے ان سب پر پابندی لگا دی ہے۔ اس لیے جب وہ بور ہونے لگتے ہیں تو انہیں اپنے ’من کی بات‘ کرنے کا خیال آجاتا ہے۔ پہلے یہ بات ہر ماہ ہوتی تھی لیکن اب ہفتہ وار ہونے لگی ہے۔ کورونا کی آمد کے بعد چوتھی بار انہوں نے قوم سے خطاب کیا۔ اس سے ایک دن قبل گاؤں کے سرپنچوں کو بھاشن دیا۔ اس سے پہلے وزرائے اعلیٰ سے خطاب کیا۔ اس سے بھی قبل سارک ممالک کے رہنماوں کو مخاطب کیا۔ گویا الفاظ کا ایک سیلاب مسلسل ہے جو کورونا سے بھی زیادہ تیزی پھیل رہا ہے۔ مودی جی اتنا کچھ بول چکے کہ اب نہ انہیں یاد رہتا ہے کہ کیا بول چکے ہیں اور نہ عوام یاد رکھتے ہیں کہ کیا سن چکے ہیں۔ سنتے سنتے لوگ پک چکے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کوئی ٹھوس کام کریں۔ کورونا کے دوران اور بعد میں آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کا لائحہ عمل بتائیں۔ لیکن نہ وہ منصوبہ بناتے ہیں اور نہ بتاتے ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنما کپل سبل نے ایک دن قبل اس کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیر اعظم مرد ناداں پر زبان نرم نازک والی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
اس بار من کی بات میں مودی جی نے امید ظاہر کی کہ عید تک کورونا کو شکست سے دوچار کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم خواب دیکھنے اور خواب بیچنے میں ماہر ہیں، لیکن بدقسمتی سے حقائق اس خیال کی تردید کرتے ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ قبل 17 اپریل تک ان کی جنم بھومی ریاست آدرش گجرات کرونا سے متاثرہ ریاستوں کی فہرست میں چھٹے مقام پر تھا، لیکن دو دن قبل 24 اپریل کو وہ دوسرے مقام پر آگیا ہے۔ گجرات کی راجدھانی جہاں مودی جی کا گھر ہے، فی الحال کورونا کا سب سے خطرناک ہاٹ اسپاٹ بن گیا ہے جہاں ہر چار دن کے اندر متاثرین کی تعداد دوگنی ہوجاتی ہے۔ امریکہ اور یوروپ میں بھی مریضوں کی تعداد صرف چار دنوں میں دوگنی ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ایسی خبریں بھی آئیں کہ 19 اپریل سے 21 اپریل کے درمیان سرکار نے جانچ کی شرح 4 ہزار 2 سو یومیہ سے گھٹا کر2 ہزار 7 کردی۔ ظاہر ہے کہ جب ٹیسٹ کم ہوں گے تو متاثرین بھی کم ہی ہوں گے۔ لیکن اس سے قبل کہ چھپانے کی یہ کوشش کامیاب ہوتی، احمد آباد کے کمشنر نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
ہوایوں کہ احمدآباد کے میونسپل کمشنر وجے نہرا نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ اگر کورونا وائرس کے معاملات میں گزشتہ چار روز سے جاری تشویشناک اضافہ آگے بھی جاری رہا تو وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 مئی تک 50 ہزار ہوجائے گی اور مئی کے اواخر تک اس کے 8 لاکھ تک بڑھ جانے کے خدشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال شہر میں 1638 کورونا کے مثبت افراد موجود ہیں۔ یہ تعداد گجرات میں سے سب سے زیادہ ہے اور اب تک 75 مریضوں کی موت بھی ہوچکی ہے جبکہ 105 افراد صحتیاب ہوکر گھر چلے گئے ہیں۔ جملہ 1459 متاثرین زیر علاج ہیں۔ گجرات کا دوسرا بڑا شہر سورت مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور وہاں اگلے ایک ماہ میں کورونا سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرسکتی۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
یہ وہی احمد آباد ہے جہاں سول اسپتال میں مریضوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تفریق کے الزامات لگے ہیں۔ 12 اپریل سے پہلے تک اس اسپتال میں کورونا سے متاثرہ ہندو اور مسلمان مریضوں کو ایک ہی وارڈ میں رکھا جا رہا تھا، تاہم اس کے بعد مریضوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکے علیحدہ علیحدہ وارڈز میں منتقل کردیا گیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 12 اپریل کی شب وارڈ ’اے فور‘ میں موجود تمام مسلمان مریضوں کو جب وارڈ ’سی فور‘ میں منتقل کیا گیا تو انہیں یقین دہانی کی گئی کہ نئے وارڈ سی فور میں صحت کی بہتر سہولیات میسر ہیں، لیکن انتظامیہ منتقلی کی کوئی تسلی بخش وجہ نہیں بتا سکا۔ احمد آباد سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جی ایچ راتھوڈ نے انڈین ایکسپریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایک حکومتی نوٹیفیکیشن کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندووں کے لیے الگ الگ وارڈز بنائے گئے ہیں۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
اس بابت جب حکومت کی بدنامی ہونے لگی تو وزیر صحت کشور کانانی نے اس منتقلی کے لیے ڈاکٹروں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ کاش کہ مودی جی کا ٹوئٹ اس وقت آتا کہ کورونا مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا۔ تبلیغی جماعت کے مرکز کو بہانہ بنا کر ملک بھر میں نفرت کا ماحول گرم کیا گیا، جبکہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق مرکز تبلیغ میں گجرات کا ایک بھی فرد موجود نہیں تھا۔ اس طرح اس غبارے کی ہوا بھی نکل جاتی ہے کہ ہندوستان بھر میں کورونا تبلیغی مرکز سے پھیلا۔ جس صوبے میں مرکز کا ایک بھی فرد موجود نہیں تھا وہ آخر دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گیا؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ٹرمپ کے نیویارک کے بعد مودی کا احمد آباد بھی ہاٹ اسپاٹ بنتا جارہا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں ٹرمپ کو ہزاروں لوگوں نے نمستے کہا تھا اور جو مودی جی نے کہلوایا تھا۔ ٹرمپ صاحب تو لوٹ گئے، لیکن کرونا نے اس شہر کو نمستے کہہ دیا۔ کرونا ٹرمپ صاحب سے پہلے احمدآباد پہنچ چکا تھا یا ان کے ساتھ ہی طیارے میں آیا تھا، اس کے بارے میں تو کوئی کچھ بھی نہیں جانتا، لیکن احمداباد و سورت جیسے شہروں کے میونسپل کمشنرس یہ ضرور بتا رہے ہیں کہ آئندہ پندرہ بیس دنوں میں نمستے کورونا کی تعداد 8 کروڑ سے متجاوز ہوسکتی ہے۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف گجرات بلکہ پورے ملک کے لیے بہت بڑی تباہی ہوگی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں ہمارے پردھان سیوک جی اپنے ’گرہ راجیہ‘ کی اس حالتِ زار سے اپنی آنکھیں کیون موند رہے ہیں۔ نمستے ٹرمپ کے موقع پر غریبوں کی ایک پوری بستی کو اونچی اور طویل دیوار سے چھپایا تو جاسکتا ہے، لیکن نمستے کورونا ہر دیوار سے آزاد ہے۔ پردھان سیوک کو چاہیے کہ وہ اپنے من کی بات سے عوام کے صبر کا مزید امتحان لینے کے بجائے دیش کے عوام کے من کی بھی کچھ سن لیں کیونکہ بھکمری کی دستک اب مزید تیز ہوتی جا رہی ہے۔ یا کم ازکم احمدآباد و سورت کے میونسپل کمشنرس کی ہی کچھ سن لیں کہ جوایک بڑے خطرے کی آمد کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Apr 2020, 10:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز