پاکستان اس لحاظ سے ایک دلچسپ ملک ہے کہ یہاں اقتدار کا کھیل ایک چومکھی لڑائی ہے۔ ایک طرف ملٹری اسٹبلشمنٹ اقتدار اپنے پاس رکھنے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری اس لڑ ائی نے ستر سال میں پاکستان کو کسی ایک نظام حکومت پر یکسو نہیں ہونے دیا۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے آمر اقتدار میں آکر جمہوری بننے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں اور جمہوری دور کے سیاسی حکمران آمر بننے کی کوشش میں نظر آئے ہیں۔ ایسے میں نہ آمر آمر بن سکے اور نہ ہی جمہوری حکمران جمہوری بن سکے۔
نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی بھی اسی کھیل کی نئی اننگ ہے۔ وہ کہہ تو نہیں رہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف اس بار بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے اچھے تعلقات نہ رکھ سکے۔ اور انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن یہ نواز شریف کے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 1993 میں بھی اس وقت کے آرمی چیف نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ 1999 میں وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشر ف نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ اور اب تیسری دفعہ جب وہ وزیر اعظم بنے ہیں تو بھی ان کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور انہیں ایک عدالتی فیصلہ کے ذریعے نا اہل قرار دیکر معزول کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بار فوج نے انہیں اقتدار سے نکالا ہے اور ہر بار وہ دوبارہ فوج کی مدد سے ہی اقتدار میں واپس آئے ہیں۔ اس طرح ان کے اور پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کے درمیان پیار اور نفرت کا ایک کھیل جاری ہے۔
لیکن اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں مکمل طور پر مائنس کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اسی لئے اس بار انہیں تو اقتدار سے باہر کیا گیا ہے لیکن ان کی جماعت کا اقتدار قائم ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم نہیں ہیں۔ لیکن ان کے چھوٹے بھائی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے اپنے ہی دوسرے ساتھی اقتدار میں ہیں۔ لیکن وہ اقتدار میں نہیں ہیں۔ یہ نواز شریف کے لئے ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ وہ اپنی نااہلی کے فیصلہ کے خلاف اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کے خواہاں ہیں لیکن انہیں اپنی ہی جماعت سے مکمل سپورٹ نہیں مل رہی ہے۔
2008 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو نواز شریف کی جماعت اپوزیشن میں تھی۔ چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے۔ انہیں نواز شریف نے خود اپنی مرضی سے اپنا نمبر ٹو بنایا۔ 2013 میں جب نواز شریف پاکستان کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے چودھری نثار علی خان کو وزیر داخلہ جیسی اہم وزارت دی۔ وہ نواز شریف کے نائب کپتان سمجھے جاتے تھے۔ لیکن آج ان کے اور نواز شریف کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ چودھری نثار علی خان کو نواز شریف کے انداز حکمرانی پر شدید تحفظات تھے۔ اسی لئے وہ جی ٹی روڈ کی ریلی میں بھی نوازشر یف کے ساتھ نہیں تھے۔ صرف چودھری نثار علی خان ہی نہیں پارٹی کے دیگر سینئر ساتھی بھی نواز شریف کے ساتھ نہیں ہیں۔ سب کو اعتراض ہے کہ وہ اب اپنے سینئر ساتھیوں کی کم اور بیٹی مریم نواز کی زیادہ سنتے ہیں۔ بڑے بڑ ے فیصلے مریم نواز کرتی ہیں۔ اور مریم نواز کی سوچ اور ان کی پارٹی کے سینئر ساتھیوں کی سو چ میں فرق ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ مریم نواز کی اور ان کے چچا شہباز شریف کی سوچ میں بھی فرق ہے۔ شہباز شریف بھی اس بار اسٹبلشمنٹ سے لڑائی کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ بھی درمیانے راستہ کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے بھائی نواز شریف ان کی نہیں سن رہے۔
نواز شریف کا موقف ہے کہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے۔ عمر بھی ستر سال کے قریب پہنچ گئی۔ ان کی سیاسی اننگ اب آخری دور میں ہے۔ ان کے لئے اب صرف دو ہی ہدف ہیں۔ ایک تو وہ اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی مریم نواز کو دینا چاہتے ہیں۔ دوسرا وہ پاکستان میں سول بالا دستی کی فائنل اننگ کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں آگ کے دریا ہیں ۔ جن کو پار کرنا فی الحال نواز شریف کے لئے مشکل نظر آرہا ہے۔ اس لئے وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
نواز شریف کی نا اہلی کے بعد قومی اسمبلی کی جو سیٹ خالی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس پر اپنی بیوی کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ وہ چاہتے تو یہی تھے کہ وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو ٹکٹ دیتے لیکن مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہی پانامہ میں نا اہل ہو گئی ہیں۔ اور انتخاب نہیں لڑ سکتیں۔ یہ نواز شریف کے لئے اپنی نا اہلی سے بڑا غم ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی بیوی کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ ایک عمومی رائے تو یہ ہے کہ جنہوں نے اتنی مشکل سے نواز شریف کو مائنس کیا ہے وہ نواز شریف کی سیاسی وارث مریم نواز کو بھی مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نواز شریف کی بیوی کلثوم نواز کے لئے اقتدار کے دروازے کیسے کھول دیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ہاؤس وائف ہونے کی وجہ سے کلثوم نواز پر کوئی کیس نہیں ہے۔ کوئی جائیداد نہیں ہے۔ وہ کلین ہیں۔ اس لئے اگر وہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئیں تو نواز شریف انہیں وزیر اعظم بنانے کے لئے ایک لمحہ بھی نہیں لگا ئیں گے۔ اس لئے کلثوم نواز ملٹری اسٹبلشمنٹ کے لئے خطرہ کی گھنٹی بھی ہیں۔ ان کے ذریعے نواز شریف اور ان کا خاندان دوبارہ وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ سکتے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے بعد اپنے بھائی شہباز شریف کو اپنی پارٹی کا صدر نامزد تو کر دیا ہے۔ لیکن اس فیصلے کو نواز شریف کے گھر کے اندر پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے اس طرح تو پارٹی نواز شریف سے شہباز شریف کے پاس چلی جائے گی۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ نواز شریف سے بغاوت کرنے والے چودھری نثار علی خان اور شہباز شریف کی پکی دوستی اور دھڑے بندی کا پورا پاکستان گواہ ہے۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس سے پہلے جب بھی چودھری نثار علی خان اور نواز شریف کے درمیان اختلاف ہوا ہے شہباز شریف نے ہی صلح کروائی ہے ۔ لیکن اس بار وہ بھی صلح کی جلدی میں نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ تاثر ہے کہ شہباز شریف بھی نواز شریف کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کو علم ہے کہ اگر نواز شریف دباؤ سے نکل گئے تو وہ نہ تو پارٹی کی صدارت اور نہ ہی وزارت عظمیٰ انہیں دیں گے۔یہ بھی خبریں ہیں کہ نواز شریف کے ستر رکن قومی اسمبلی بھی نواز شریف سے بغاوت کے لئے تیار ہیں۔ وہ بھی اس لڑائی کے حق میں نہیں۔ انہیں بھی شہباز شریف کی قیادت قبول ہے۔
شہباز شریف کی بیگم تہمینہ درانی کے ٹوئٹس نے بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں کافی توجہ حاصل کی ہے۔ان کے یہ ٹوئٹس نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی کے خلاف تھیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اہم سیاسی مواقع پر نواز شریف کے خلاف ٹو ئٹس کرتی رہی ہیں۔ گو کہ ظاہری طور پر شہباز شریف کا تاثر یہ ہے کہ ان کا اپنی بیگم تہمینہ کے ٹوئٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن یہ بھی رائے مضبوط ہے کہ ان میں شہباز شریف کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ا ور ان ٹوئٹس سے ہی شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کو یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہیں نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ مخالف پالیسیوں سے اختلاف ہے۔
بلا شبہ نواز شریف اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقتدار ان کے ہاتھوں سے چلا گیا ہے۔ اور سیاست جاتی نظر آرہی ہے۔ پارٹی میں بغاوت ہے۔ بیٹی اور بیٹے نااہل ہو گئے ہیں۔ اب بس بیگم آخری امید ہیں۔ اگر یہ امید بھی ٹوٹ گئی تو نواز شریف اور ان کے خاندان کی سیاست کا بستر گول ہو تا نظر آرہا ہے۔ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی ان کی اس جنگ میں فریق بننے کو تیار نظر نہیں آرہا۔ اس لئے سیاسی تنہائی ان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
Published: 18 Aug 2017, 11:21 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Aug 2017, 11:21 AM IST