سیاسی

نواز شریف کی ریلی: نہ مکمل جیت، نہ مکمل ہار

نواز شریف کی ریلی: نہ مکمل جیت، نہ مکمل ہار

پاکستان کے جی ٹی روڈ میں ریلی کے دوران نواز شریف-Getty Image
پاکستان کے جی ٹی روڈ میں ریلی کے دوران نواز شریف-Getty Image 

یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی کامیاب تھی کہ نہیں۔ دونوں طرف کے دلائل میں وزن بھی ہے۔ جو اس کو کامیاب قرار دے رہے ہیں ان کے پاس بھی عوام کا جم غفیر بطور دلیل موجود ہے۔ اور جو ناکام قرار دے رہے ہیںوہ اہداف کے حصول میں ناکامی کو بطور دلیل استعمال کر رہے ہیں۔ بہر حال اس کا ابھی انداذ ہ نہیں کیا جا سکتا۔

میں سمجھتا ہو ں کہ نواز شریف کی جی ٹی روڈ کی ریلی کامیابی اور نا کامی کے درمیان کہیں پھنس چکی ہے۔ عام فہم زبان میں یہ ریلی نہ تو مکمل کامیاب رہی کہ اپنے اہداف حاصل کر سکی اور نہ ہی مکمل نا کام رہی کہ اس کا ذکر ہی نہ کیا جا ئے۔ یا اس کے پاکستان کی سیاست پر کوئی اثرات نہ ہوں۔ آپ اسے مزید ایسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ اور ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ نہ یہ مکمل جیت ہے اور نہ ہی یہ مکمل ہار۔ اکثر کرکٹ کے میچ میں ایک ٹیم بہت اچھا کھیلتی ہے لیکن آخر میں میچ ہار جاتی ہے۔ اب ٹیم کی کارکردگی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہ ہار پر حاوی ہو رہی ہو تی ہے اور ہار اس اچھی کاکردگی کو فتح قرار نہیں دی جا سکتی۔

نواز شریف کی جیت یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ نا اہلی کے سیاسی جھٹکے اور وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ ن لیگ کا ووٹ بنک کمزور ہو جائے گا۔ ن لیگ کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوا ہے۔ یعنی پنجاب میںووٹ بنک ہی ختم ہو گیا ہے۔ ویسے تو پنجاب کا ہر حلقہ اس کی ایک مثال ہے لیکن اگر قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کی مثال ہی لی جائے تو 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے میدوار جہانگیر بدر نے اس حلقہ سے 24 ہزر سے زائد ووٹ لئے تھے اور پھر 2013کے انتخابات میں اسی حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو صرف 24 سو ووٹ ملے۔ ایسا پنجاب کے تمام حلقوں میں ہوا۔ اس لئے یہ خیال تھا کہ نواز شریف کی نا اہلی کا ڈائریکٹ اثر ان کے ووٹ بنک پر ہو گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی ریلی اس حد تک تو کامیاب رہی کہ انہوں نے اپنے ووٹ بنک کو سہارا دیا ہے۔ ووٹر کو متحرک کیا ہے۔ اس کو حوصلہ دیا ہے کہ میں ابھی میدان میں ہوں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کیا ہے۔ جو سیاست کی بنیاد ہے۔ووٹ بنک بچ گیا تو سیاست بھی بچ جائے گی۔

لیکن نواز شریف کی ہار یہ ہے کہ صرف ووٹر کو متحرک کرنے کے لئے چار دن کی اتنی بڑی ریلی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کام آسانی سے شہر شہر جا کر بھی ہو سکتا تھا۔ نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے بعد جو لائن لی تھی وہ یہ بتا رہی تھی کہ وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا رادہ رکھتے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے پہاڑ سے ٹکرانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ فائنل راﺅنڈ کھیلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ بس سادہ زبان میں اب یا نواز شریف رہے گا یا اسٹبلشمنٹ ۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے بت کو توڑنے نکل رہے ہیں۔ ان کے سامنے طیب اردگان کی مثال تھی۔ طیب اردگان کی جانب سے ترکی کی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کر نے کی مثالیں ن لیگ کی محفلوں میں دی جا رہی تھیں۔ ترکی میں جس طرح عوام نے اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں طیب اردگان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کی مثالیں دی جا رہی تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کو رول ماڈل بنا یا جا رہا تھا۔ نواز شریف جی ٹی روڈ پر عوام کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف نکالنے نکلے تھے۔سب کہہ رہے تھے کہ دس لاکھ لوگوں کا ٹارگٹ تھا۔ امید تھی کہ لوگ ساتھ نکلیں گے اور آخر تک ساتھ رہیں گے۔ جب لاہور پہنچیں گے تو بس عوام کا فیصلہ آ گیا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگ آئے لیکن اتنی تعداد میں نہیں آئے۔ اس لئے یہ ریلی اپنے اصل مقاصد حا صل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس اب کیا راستے ہیں ۔ ایک راستہ تو وہ ہے جو ن لیگ کے سنیئرز کہہ رہے ہیں کہ کم سے کم ٹکراﺅ کی طرف جایا جائے۔ جو چودھری نثار علی خان کہہ رہے ہیں۔ جو دبے دبے الفاظ میں شہباز شریف بھی کہہ رہے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ سے بگڑی بات بنائی جائے۔ نواز شریف کپتان سے چیف سلیکٹر بن جائے تا کہ باقی ٹیموں کے کپتانوںکو بھی چیف سلیکٹر بنایاجاسکے۔ نواز شریف شاید اپنی نا اہلی تو ختم نہیں کر سکتے لیکن وہ اپنے سیاسی حریفوں کی نا اہلی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کی حد تک توسکرپٹ پر عمل ہو گیا ہے۔ وہ باقی سکرپٹ کا راستہ کیوں روک رہے ہیں۔ ان کی ریلی عمران خان کو سیاسی زندگی بخش رہی ہے۔ وہ ایک جگہ اپنی واپسی کا راستہ بھی روک رہے ہیں اور دوسری جگہ عمران خان اور زرداری کو زندگی بھی بخش رہے ہیں۔ یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ اگر ضیاءالحق کے دور میں وطن واپسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بڑی عوامی تحریک چلائی تو انہوں نے اسٹبلشمنٹ کو ان کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانے پر مجبور کر دیا۔ اگر بے نظیر اسٹبلشمنٹ کو اس قدر چیلنج نہ کرتیں تو وہ اتحاد نہ بنتا۔ اور پھر بعد میں بے نظیر نے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی اور شراکت اقتدار کیا۔ لیکن تب بہت دیر ہو گئی تھی۔

اب نواز شریف کیا کر رہے ہیں۔ وہ ایک طرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کرا پنی پانچ حکومتیں بھی چلانا چاہتے ہیں۔ اور اسٹبلشمنٹ کو چیلنج بھی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم اور شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اسٹبلمشنٹ کے ساتھ جنگ بھی لڑنا چاہتے ہیں۔ یہ دو عملی ممکن نہیں۔ وہ سیاسی طور پر دو کشتیوں کی سواری نہیں کر سکتے۔ دو کشتیوں کی سواری سے وہ سیاست کے سمندر میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔ وہ کسی بڑے حادثہ کو دعوت دے رہے ہیں۔

ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ bluff کی گیم کھیل رہے ہیں۔ وہ فوری طور پر کلثوم نواز کے کاغذات منظور کروانا چاہتے ہیں۔ اور سب کوعلم ہے کہ ایک دفعہ کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں تو وہ فورا وزیر اعظم بن جائیں گے۔ بیچارے شاہد خاقان عباسی کے جانے کو تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا۔ یہ سارا پریشر کلثوم نواز کے کاغذات منظور کروانے کے لئے بنایا جا رہا ہے۔ عدلیہ کو للکارا جا رہا کیونکہ اب فوری طور پر کلثوم نواز کے کاغذات کا کیس ہی وہاں جانا ہے۔ اگر کلثوم نواز بچ جاتی ہیں تو نواز شریف اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھیں گے۔ پھر یہ ریلی ان نزدیک کامیاب ہو گئی۔ اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ اصل اعلان بعد میں کروں گا۔ وہ bluff گیم کھیل رہے ہیں۔ جس کو سب سمجھ رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی گیم نہیں۔ یہ پرانی چال ہے۔ کیا جنہوں نے اتنی محنت سے نواز شریف کو نکالا ہے وہ کلثوم نواز کو آنے دیں گے۔بات سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن اگر کلثوم نواز کے کاغذ مسترد ہو گئے تو آپ پھر اس ریلی کے اہداف میں ایک اور نا کامی کا اضافہ ہو جائے گا۔ پھر ہی نواز شریف سمجھیں گے کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس بار نواز شریف جلدی میں ہیں۔ نا اہلی کے بعد انہوں نے سیاست کے ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹونٹی بنا دیا ہے۔ کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کر کے اور ریلی نکال کر انہوں نے اپنے مخالفین کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کے حو الہ سے باقی فیصلے بھی فورا کئے جائیں۔ وہ گیم کو لمبا نہیں لیجانا چاہتے ہیں۔ وہ اس گیم کو لمبا کر سکتے تھے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ جلدی فیصلے کے موڈ میں ہیں۔ حالانکہ یہ سیاست کے بنیا دی اصولوں کے خلاف ہے۔ لیکن اب یہ نواز شریف کی خواہش ہے۔ اس لئے مخا لف فریقین کو ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میچ کو ٹی ٹونٹی کے طور پر ہی کھیلنا پڑے گا۔ اور نتائج بھی فوری فوری سامنے ا ٓجائیں گے۔

  • مضمون نگار پاکستان کے معروف صحافی ہیں

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined