ہم نے’انترآتما‘ (دل کی آواز) کی آواز سن کر استعفیٰ دینے کا فیصلہ لیا ہے۔ مهاگٹھ بندھن کی حکومت کو 20 ماہ سے زیادہ چلایا۔ ہم نے اتحاد کے دھرم کی پیروی کی۔ مسلسل کام کرنے کی کوشش کی۔ جتنا بھی ممکن ہوا ہم نے کام کرنے کی کوشش کی، لیکن اس دوران جو چیزیں ابھر کر سامنے آئیں، ایسے ماحول میں میرے لئے کام کرنا ممکن نہیں۔ سال 2017 میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے ان جملے کا استعمال کرتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی زیر قیادت حکومت کو خیرآباد کہہ دیا تھا اور آناً فاناً اس اتحاد کا حصہ بن گئے تھے جس کے بارے میں کبھی یہ کہا تھا کہ میں مٹی میں مل جاؤں گا لیکن بی جے پی میں نہیں جاؤں گا۔یعنی مرکز کی مودی حکومت کی گود میں جاکر بیٹھ گئے تھے۔
نتیش کمار نے اپنے سیاسی ڈرامہ کے لیے پلاٹ اس وقت کے بہار کے نائب وزیراعلی تیجسوی یادو کے ذریعہ کی گئی مبینہ بدعنوانی کو بنایا تھا جو آج کے نائب وزیراعلی سشیل کمارمودی کے ذریعہ لگاتار لگائے جارہے تھے۔ کل ملا کر نتیش کمار کو جہاں جانا تھا وہ چلے گئے۔ وقت گزرتا گیا، کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو صحیح قراردیا اور کچھ لوگوں نے اسے غلط۔ صحیح غلط کا پیمانہ چاہے جوبھی رہا ہو لیکن آج جب اسی نتیش کمار پر ملک کے چہرے پر لگے مظفر پور گرلس شیلٹرہوم میں ہوئی اجتماعی عصمت دری کے بدنما داغ کے معاملے میں پوچھ گچھ کا امکان ہے، تو اب سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا اب ان کی ’انترآتما‘ جاگے گی۔ معاملہ یہ ہے کہ مظفر پور گرلس شیلٹرہوم میں ہوئی اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں پوکسو عدالت کے ذریعہ وزیر اعلی نتیش کمار، سماجی بہبود محکمہ کے پرنسپل سکریٹری اتل پرساد اور اس وقت کے ڈی ایم دھرمیندر سنگھ کے خلاف سی بی آئی جانچ کی عرضی سی بی آئی ایس پی کے پاس بھیجی گئی ہے جس میں عرضی گزار نے ان سب کے خلاف تحقیقات کی مانگ کی تھی۔ عرضی میںسوال اٹھایا گیا ہے کہ ایسی درندگی بغیر ملی بھگت اور انتظامی ساز باز کے ممکن نہیں تھی۔
ڈاکٹر اشونی نے الزام لگایا ہے کہ شیلٹر ہوم معاملے میں حقائق کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عرضی گزار ڈاکٹر اشونی نے اپنے وکیل سدھیر کمار اوجھا کے ذریعے داخل عرضی میں کہا ہے کہ شیلٹر ہوم کے منتظمین کو معمول کی جانچ میں کلین چٹ اور فنڈ کی لگاتار فراہمی انتظامیہ کی ملی بھگت اور شہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
Published: 17 Feb 2019, 3:09 PM IST
ممبئی میں واقع ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ذریعے کیے گئے سوشل آڈٹ کی رپورٹ میں مظفرپور شیلٹر ہوم میں لڑکیوں کی آبروریزی کا معاملہ جون 2018 میں سامنے آیا تھا۔ ریاستی حکومت نے 26جولائی 2018 کو جانچ کے لیے یہ معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا تھا۔ اس معاملےمیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہی بہت سی سماجی تنظیمیں وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بھی پوچھ گچھ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
دراصل اس معاملے میں نتیش کمار حکومت شروع سے درپردہ ملوث رہی ہے۔ سب سے پہلے تو اس معاملے میں اس وقت کی وزیر برائے خواتین بہبود منجو ورما کو استعفیٰ دینا پڑا۔ کیونکہ جس برجیش ٹھاکر کے ذریعہ گرلس شیلٹر ہوم چلایا جا رہا تھا اس کو محکمہ خواتین بہبود کے ذریعہ زبردست مالی معاونت کی جاتی تھی۔ قانون کو بالائے طاق رکھ کر ان کو فنڈ فراہم کیے جارہے تھے۔ اس طرح کی بدعنوانی کے سامنے آنے کے بعد ہی وزیراعلی نتیش کمار نے منجوورما سے استعفیٰ لے لیا تھا۔ منجو ورما پر ایک اور الزام تھا کہ ان کے شوہر چندیشور ورما کے گرلس شیلٹرہوم کے مالک برجیش ٹھاکر سے مراسم تھے اور وہ اکثر شیلٹر ہوم آیا جایا کرتے تھے۔ متاثرہ لڑکیوں نے بھی چندیشور ورما کے تعلق سے کئی باتیں کہیں تھیں۔
دوسری جانب اس معاملے میں وقت کے ساتھ حکومت اور نتیش کمار کے دامن پر لگے داغ کو دھونے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس تعلق سے سب سےاہم کھیل کھیلا گیا ٹرانسفر کا۔ حکومت نے بغیر کسی وجہ کے تفتیشی افسر اے کے شرما کا تبادلہ کردیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پھٹکار لگاتے ہوئے پوچھا بھی کہ تفتیشی افسر اے کے شرما کا تبادلہ کیوں کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس وقت سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ہمارے حکم سے کھیل رہے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ آپ نے کورٹ کے حکم کی توہین کی ہے۔ کورٹ نے اے کےشرما کو ہٹائے جانے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس وقت کے سی بی آئی کےعبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کو طلب بھی کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ناگیشور راؤ کے خلاف کورٹ کی توہین کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
اس معاملے کو7 فروری کو مظفرپور کورٹ سے دہلی کی خصوصی پاکسو کورٹ میں منتقل کیا گیا تھا اور اگلے ہفتے سے اس کی سنوائی کا امکان ہے۔ یعنی معاملے کی لیپاپوتی کی تمام ترکوششوں کے باوجود قانون نے آج اس گریبان کو پکڑا ہے جو مسلسل اپنی شیبہ کے تعلق سے بلند و بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ درحقیقت پوکسو عدالت کے حکم نے نتیش کمار کو کہٹرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں اب ان سے عوام کے ساتھ خاص بھی سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا ایسے گھناؤ نے معاملے میں ان کے کردار کی جانچ کے تعلق سے ان کی ’انترآتما‘ کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ کیا اب بھی ان کی انترآتما جاگے گی۔ اس حوالے سے خبریں آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بھی وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر حملہ تیز کر دیا ہے۔ آرجے ڈی کے قومی ترجمان پروفیسر منوج کمار جھا نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈکیتی سے اکثریت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقیات نہیں۔ اب طے کر لیں کہ استعفیٰ خود دینا ہے یا پھر ناگپور سے میسج آنے کے بعد۔
Published: 17 Feb 2019, 3:09 PM IST
م ن
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Feb 2019, 3:09 PM IST