’’متروں، مجھے وزیر اعظم نہیں چوکیدار بنا دیجیے۔ بس پھر ملک کی دولت پر کسی پنجے کا سایہ تک نہیں پڑ پائے گا!!‘‘ یہ تھے نریندر مودی کے الفاظ سنہ 2014 میں ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے۔ اور جب ملک والوں نے نریندر مودی پر بھروسہ کر ان کو چوکیدار منتخب کر لیا تو اسی چوکیدار کی ناک کے نیچے سے دو جوہری یعنی نیرو مودی اور میہل چوکسی پنجاب نیشنل بینک سے 11000 کروڑ سے زائد کی رقم لے کر ملک سے چمپت ہو گئے۔ ارے ایک نیرو مودی اور چوکسی کیا اب تو خبریں یہ بھی آ چکی ہیں کہ نیرو مودی کی طرح نہ جانے کتنے سرمایہ دار ملک کے تمام سرکاری بینکوں سے ہزاروں کروڑ کا قرضہ لے کر ہڑپ گئے۔ بینکوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اب ڈوبنے کی کگار پر ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق بینکوں کا ایک لاکھ کروڑ روپے کا قرض ایسا ہے جس کے واپس آنے کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔
بینکوں کی یہ ڈکیتی کس کے راج میں ہو رہی ہے! اسی نریندر مودی کے راج میں جس نے سنہ 2014 کی انتخابی تشہیر کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ ملک کی وہ کالی دولت جو باہر بینکوں میں جمع ہے اس کو وہ واپس لائیں گے۔ اور ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں وہ 15 لاکھ روپے جمع کروائیں گے۔ آج ملک کا وہی ’چوکیدار‘ خود گہری نیند سو رہا ہے۔ لوگوں کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے آنے کے بجائے گجرات کے جوہری پورے کے پورے بینک لوٹ کر ملک سے بااطمینان باہر جا رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ملک میں بدعنوانی نہیں بلکہ لوٹ راج چل رہا ہے۔ ہر روز ایک نئے گھوٹالے کی خبر آتی ہے اور مودی جی کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ اور جوں رینگے بھی تو رینگے کیسے! آپ خود سوچیے سنہ 2014 سے اب تک مودی جی کم از کم دس بارہ بڑے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ اگر آپ محض پچھلا لوک سبھا انتخاب لے لیں اور اس انتخابی تشہیر میں بی جے پی کے انتخابی خرچ کا تخمینہ لگائیں تو وہ خرچ ہزاروں کروڑ نہیں بلکہ شاید ایک لاکھ کروڑ تک پہنچ جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے پاس یہ بھرمار دولت آتی کیسے ہے! ہوتا یہ ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور دولت مند تاجر اس شخص یا اس کی پارٹی کو انتخاب لڑنے کے لیے سینکڑوں کروڑ کا چندہ دیتے ہیں جس کی انتخاب میں جیتنے کی امید ہوتی ہے۔ سرمایہ دار یہ چندہ مودی یا بی جے پی یا کسی اور کی محبت میں نہیں دیتے ہیں۔ یہ چندہ (بلکہ یوں کہیے کہ یہ رشوت) اس امید میں دیا جاتا ہے کہ جیتنے والا اقتدار میں آنے کے بعد اس کو 100 کروڑ روپے کہ عوض میں کم از کم ایک ہزار کروڑ روپیہ بنوائے گا۔ اب فرض کر لیجیے (یہ بات محض مثال کے طور پر کہی جارہی ہے) کہ نیرو مودی نے بی جے پی کو انتخاب کے دوران سو کروڑ روپیہ چندہ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ پھر اس پر ایک ہزار کروڑ بنائے گا۔ اب یہ نیرو مودی کی بے ایمانی ہے کہ اس نے پنجاب نیشنل بینک سے ایک ہزار کروڑ کے بجائے 11000 کروڑ سے بھی زیادہ روپے مار دیے۔
خیر،سرمایہ دارانہ نظام نام ہے لوٹ کا۔ لیکن ہندوستان نے کانگریس کے دور میں کبھی ایسی لوٹ نہیں دیکھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس دور میں ملک کو کبھی محض سرمایہ داروں کی ملکیت نہیں سمجھا گیا۔ کانگریس نے ملک کی دولت میں عام آدمی کا بھی ایک حصہ ہمیشہ رکھا جو کبھی منریگا تو کبھی کسی دوسری اسکیم کے ذریعہ عوام تک پہنچتا رہا۔ لیکن مودی راج میں ملک کی دولت صرف اور صرف سرمایہ داروں اور نیرو مودی جیسے بڑے دولتمند تاجروں کے لیے ہی ہے۔ تب ہی تو بینک ڈوب رہے ہیں اور بینک کو لوٹنے والے مالیا، مودی، چوکسی بااطمینان بینکوں کو لوٹ کر راتوں رات ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔
لیکن مودی حکومت کا یہ لوٹ راج اب ہندوستانی عوام کو صاف نظر آنے لگا ہے۔ نیرو مودی کی لوٹ کے بعد ملک کے عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مودی نے دنیا بھر کے وعدے دے کر ان کا ووٹ تو لے لیا لیکن عوام کو کچھ دینے کے بجائے خود ان کی دولت لٹوا دی۔ اب نریندر مودی وہ مودی نہیں بچے جو وہ ہوا کرتے تھے۔ سنہ 2014 میں نریندر مودی کی ہر جھوٹی بات بھی سونا ہوا کرتی تھی۔ اب اسی نریندر مودی کی سچی بات بھی مٹی ہو چکی ہے۔ نیرو مودی تو لوٹ کر چلا گیا لیکن وہ اپنے ساتھ نریندر مودی کی ساکھ بھی لے گیا۔ سیاست میں کسی سیاستدان کی ساکھ چلی جائے تو بس پھر انتخاب بھی چلا جاتا ہے۔ یعنی اب نریندر مودی کے لیے سنہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب جیتنا مشکل ہو گیا ہے۔
لیکن نریندر مودی کوئی کچے سیاسی کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں سنہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب نکالنا ان کے لیے کارِ دارد ہے۔ لیکن پھر بھی مودی ہر حالت میں انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ سنہ 2029 تک وہی وزیر اعظم بنے رہیں گے۔ لیکن اب یہ کرشمہ ہو تو ہو کیسے! اب یہی وہ پیچ ہے جہاں سے نریندر مودی کا اصلی روپ ابھر کر سامنے آتا ہے وہ روپ ہے سنہ 2002 کے بعد کے نریندر مودی کا۔ گجرات فساد سے قبل نریندر مودی ایک معمولی سیاستداں تھے۔ لیکن ان فسادات میں مسلم نسل کشی کروا کر اور اس نسل کشی کا ڈنکا بجوا کر اس کا سہرا خود اپنے سر بندھوا کر مودی ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن گئے۔ اور بس اس طرح ہندوستان میں ہندوتوا سیاست کا وہ نیا دور ابھر کر سامنے آیا جس میں مسلم منافرت کے سیاست کا استعمال انتخاب جیتنے کے لیے ایک عام بات ہو گئی۔
نریندر مودی کے پاس ’گجرات ماڈل‘ کا اب وہی مسلم منافرت کا کارڈ بچا ہے۔ اب مودی سنہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب محض اسی شکل میں جیت سکتے ہیں کہ جب مسلم منافرت کی ایسی آگ ملک میں بھڑک اٹھے کہ عام ہندو بینکوں کی لوٹ اور نیرو مودی اور مالیا جیسوں کی ڈکیتی بھول کر مسلم دشمنی میں پھر سے مودی کو ’ہندو ہردے سمراٹ‘ تصور کر اپنا ووٹ پھر مودی کو ڈال دے۔
بینکوں کی لوٹ نے نریندر مودی کی ساکھ تو توڑ دی ہے لیکن وہ ابھی بھی آزاد ہندوستان کے سب سے قدآور ہندو لیڈر ہیں۔ نریندر مودی بلاشبہ اپنی اسی امیج پر اگلا انتخاب لڑیں گے۔ اب دیکھیں اس ملک کی اپوزیشن اس چیلنج سے نپٹ پاتی ہے یا نہیں!
Published: 26 Feb 2018, 6:21 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Feb 2018, 6:21 AM IST