یہ شکایت نہیں، حالات کی عکاسی ہے۔ میرے 50 سالہ صحافتی زندگی میں نریندر مودی ہی ایسے وزیر اعظم ہیں جن سے میں کبھی نہیں ملا۔ گزشتہ سالوں میں جب بھی ملاقات کی کوشش کی، آر ایس ایس کے ونے سہسربدھے کے پاس بھیج دیا گیا۔ بہت عاجزی کے ساتھ وہ یہ پیغام دینے میں اہل تھے کہ ’’مودی کے ساتھ ملاقات کے لیے انتظام نہیں ہو سکتا۔‘‘
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
کبھی صحافتی مزاح کے لیے دنیا کا پسندیدہ ٹھکانہ رہی نئی دہلی جانکاریوں سے سب سے کم واقف راجدھانیوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ خبروں کے لحاظ سے ممبئی، کولکاتا، چنئی، لکھنؤ لافانی ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کی کمی میں اینکر اور صحافی ضمنی انتخاب، ریاستی انتخاب، اتحاد یا مہا گٹھ بندھن، ذات یا فرقہ اور دیگر مسائل پر قیاس آرائیوں کی گرفت میں پھنس جاتے ہیں۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ، جو 18ویں سال میں داخل ہو چکی ہے، کے بارے میں ٹی وی پر کوئی بحث دکھا دیجیے یا پھر پرنٹ میں کوئی اچھا مضمون۔ صبر کے ساتھ اس وقت تک انتظار کیجیے جب تک ’انڈین ایکسپریس‘، ’دی اکونومسٹ‘ کا ایڈیٹوریل اپنے یہاں از سر نو شائع نہیں کرتا، جو ہمیں ہمارے پیچھے والے حصے میں تازہ حالات کے بارے میں تفصیل سے سمجھاتا ہے۔ افغانستان استثنا نہیں ہے۔ کبھی نیپال کے ہندو راشٹر کے بارے میں بی بی سی، سی این این، نیو یارک ٹائمز اور رائٹر کے ذریعہ سمجھایا گیا۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
مرغوں کی لڑائیوں کے لیے جوشیلے اکھاڑوں والے نیوز چینلوں کے افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش، مالدیب، سری لنکا، میانمار، چین، روس، برطانیہ، امریکہ سمیت کہیں بھی بیورو نہیں ہے۔ صرف ایک ہی فارمولہ ہے... ’اُدھر راقب اِدھر ہم بلائے جاتے ہیں، کہ دانہ ڈال کے مرغے لڑائے جاتے ہیں۔‘
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
وزیر اعظم نے مئی 2014 میں لوک سبھا میں پہلے ہی تقریر میں ملک کو ’غلامی‘ یا ذہنی غلامی سے آزاد کرانے کی بات کہی تھی۔ اگر وہ اپنے الفاظ کے برابر ہی سچے ہیں، تو انھیں فوراً غیر ملکی میڈیا کی بالادستی پر دھیان دینا چاہیے۔ گاندھی جی سبھی کے لیے کھڑکیاں کھلی رکھتے تھے تاکہ سبھی طرف سے ہوا کی آمد و رفت ہو سکے۔ وزیر اعظم راشٹرواد کی قسمیں کھاتے ہیں... میں اسے ’سوابھیمان‘ کہتا ہوں۔ بین الاقوامی معاملوں کی کوریج میں جب ہندوستان کا حکمراں طبقہ صرف اینگلو-امریکن میڈیا کا ہی قیدی ہو، تو دونوں ہی (راشٹرواد اور سوابھیمان) زخمی ہو جاتے ہیں۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
روس، چین اور ایران لبرل جمہوریت نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کے دنیا بھر میں بیورو ہیں۔ جب مغربی میڈیا ان کے خلاف کہانی تیار کرتا ہے، وہ اثردار طریقے سے مداخلت کرتے ہیں۔ 2019 کے انتخابات میں عالمی میڈیا ’دی ڈیوائیڈر ان چیف‘ کے خلاف اتر آیا تھا۔ مودی کے ساتھیوں نے اسے چیلنج دینے کی سوچی؟ کوشش کی ہوتی تو پتہ چلتا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پاس اپنی رسائی سے آگے سامعین/ناظرین تک پہنچنے کے وسائل نہیں ہیں۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
مودی کا میڈیا کے ساتھ محدود تجربہ ہے۔ شروعات میں ان کا سامنا ہوسٹائل میڈیا سے ہوا، جس نے ان پر 2002 کے گجرات قتل عام کا الزام لگایا۔ بعد میں ان کی کور ٹیم نے اے پی سی او جیسے گروپوں، بین الاقوامی مشیر سے ان پٹ لے کر برانڈ مودی بنانے میں مدد لی۔ برانڈنگ کے عمل میں معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت نہیں تھی، انھیں معلوم تھا کہ وہ مکمل طور پر تباہ حال ہے۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
ان کے مارکیٹروں نے صلاح دی کہ سارا دھیان ایسے موضوعات پر لگائیں جس میں بہت زیادہ جذباتی طاقت ہو۔ پاکستان کو نفرت آمیز شے کی شکل میں سامنے رکھا گیا اور بالاکوٹ میں اس پر برسرعام کوڑے برسائے گئے، مودی کے لفظوں نے ایک ساؤنڈ افیکٹ پیدا کیا جس نے ان کا ساتھ دیا۔ ’گھر میں گھس کے مارا‘ کسی غنڈے کی زبان ہے، پھر بھی کیا کیجیے رابن ہڈ بھی تو بہت مقبول ڈاکو تھا۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
کیا مودی کو میڈیا کی ضرورت ہے؟ بالکل ہے۔ میڈیا کے بغیر مودی پروجیکٹ تو مردہ پیدا ہوئے بچے جیسا ہے۔ انھیں ’بندی‘ میڈیا چاہیے نہ کہ تنقید کرنے والی آزاد میڈیا۔ یہ دو درجات کی میڈیا پالیسی پر زور دیتا ہے۔ مودی کو میڈیا کی جانچ پڑتال سے دور رکھا جائے گا۔ وہ صرف کور ٹیم کے ذریعہ پیش کردہ چیزیں بتائیں گے تاکہ کرشمے کو بڑھا سکیں اور خاص اہمیت کے کام کو انجام دے سکیں۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
میڈیا سے آمنا سامنا ضروری ہوگا تو وہ وزارت خارجہ کے ذمہ ہوگا۔ ورنہ فلٹر نہیں کی گئی چیزیں متبادل میڈیا کو کافی سامان فراہم کر دے گا۔ میڈیا کے ساتھ بات چیت کے رشتے عام طور پر ونٹلیشن کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں ایک غیر مضر معلوم ہونے والی کہانی سناتا ہوں جس نے غیر ارادی طور پر ایک قومی مقصد کو پورا کیا تھا۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
بات اس وقت کی ہے جب مرار جی دیسائی وزیر اعظم تھے۔ اس وقت میرے ایک ساتھی، وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری تھے، اور وزیر اعظم کی ٹیم میں تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھے ٹوکا اور اپنے کمرے میں کافی کے لیے مدعو کیا۔ جیسلمیر اور باڑمیر کے ان کے شاہی دوستوں نے کچھ تصویریں بھیجی تھیں) جو انھوں نے مجھے دکھائی (جن میں ائیر فورس کے رَن وے پر سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کے کچھ پرائیویٹ جیٹ اتر رہے تھے۔ ان میں نقاب سے ڈھکے باز (فالکن) اور ریگستان میں عالیشان ٹینٹ لگانے کے لیے سامان تھے۔ ان شیخوں نے جیسلمیر اور باڑمیر کے آس پاس کے ریگستان کو گوڈاون (دی گریٹ انڈین بسٹرڈ) کے شکار کے لیے دنیا کی سب سے بہترین جگہ کی شکل میں چنا تھا۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
ماہرین ماحولیات نے پایا کی گوڈاون کی تعداد گر رہی ہے۔ پی ایم کی ٹیم میں شامل میرے ساتھی نے کسی طرح سے راجستھان میں ضلع افسران کا تحریری حکم حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اسٹوری پہلے صفحہ پر شائع ہوئی۔ وزارت خارجہ کے افسر شکار کے مقام تک گئے اور انھیں وہاں سے سامان سمیٹنے کی گزارش کی۔ گوڈاون کو بچا لیا گیا۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
یہ ایک ایماندار اعتراض کنندہ کی وجہ سے ہو پایا۔ ماحولیات سے محبت کرنے والوں کو انھیں شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ واٹر گیٹ کی خبر دینے والا آخر کار سب کے سامنے آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس محافظ کو سامنے لانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ وہ آج بیمار ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس اطلاع دینے والے کی آواز چلی گئی ہے۔ اس کا نام ہے ونود گروور، جو کبھی انکارا، ہیگ اور نیروبی میں ہمارے سفیر تھے۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM IST
تصویر: پریس ریلیز
تصویر سوشل میڈیا