گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے جو گجرات کا سب سے کامیاب چہرہ بنا ہوا تھا، جس چہرے کو آگے لا کر بی جے پی نے گزشتہ عام انتخابات میں اقتدار کا زینہ طے کیا اور اتنی سیٹیں حاصل کر لیں جس کی کوئی بھی اپوزیشن پارٹی تصور نہیں کر سکتی تھی، جو چہرہ عوام کو مسحور کرنے کے لیے پورے ملک میں تنہا کافی تھا، آج اسے اپنے گھر میں ہی دوسروں کا محتاج ہونا پڑ رہا ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی۔ صورت حال یہ ہے کہ گجرات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سربراہ امت شاہ کو جلسہ کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
نوٹ بندی کے بعد سے وزیر اعظم نے گجرات میں دو اجلاس کیے ہیں اور یہ دونوں احمد آباد میں ہوئے ہیں۔ اس سے باہر ان کا جلسہ کہیں منعقد نہیں ہو پا رہا ہے۔ 16 اکتوبر کو ہوئے وزیر اعظم کے جلسہ میں بھی نہ صرف کرسیاں خالی پڑی تھیں بلکہ پاٹیداروں نے اندر گھس کر ہنگامہ بھی کیا۔ گزشتہ سال سورت میں امت شاہ کے جلسہ میں کرسیاں چلائے جانے کے واقعہ کے بعد سے ان کا گجرات کے کسی بھی علاقے میں جلسہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ایک بار پھر کچھ دنوں قبل جب انھوں نے سورت میں جلسہ کرنے کی کوشش کی تو وہاں پھر سے پاٹیداروں نے تقریب کے اندر گھس کر ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ امت شاہ کی مجبوری ہے کہ وہ راہل گاندھی پر تنقید کرنے کے لیے بھاگ بھاگ کر امیٹھی جا رہے ہیں۔گجرات میں جلسہ کے ذریعہ کانگریس اور راہل پر حملہ نہ کر پانے کی حالت میں ہی انھوں نے امیٹھی کو ’سیاسی ٹھکانہ‘ بنا کر اس کا استعمال کر نا شروع کر دیا ہے۔
دراصل پاٹیداروں کی ناراضگی سب سے زیادہ امت شاہ سے ہی ہے۔ پاٹیدار گجرات میں شاہ کو برطانوی جنرل ڈائر کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ جی ایم ڈی سی گراؤنڈ میں پاٹیداروں پر چلی گولی کے پیچھے، وہاں کے لوگ امت شاہ کا ہی ہاتھ تصور کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس گولی باری میں 10 سے زیادہ معصوم لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد سے ہی پاٹیداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ امت شاہ کو گجرات کے کسی بھی علاقے میں جلسہ کرنے نہیں دیں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ شاہ ،جہاں بھی جلسہ کرنے کے لیے جاتے ہیں، پاٹیدار کسی بھی قیمت پر اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مودی اور شاہ جب اپنے گھر میں خارج ہونے لگے ہیں تب انھیں مجبوراً اپنی پارٹی کے دوسرے لیڈروں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی کا روڈ شو ہو یا پھر بھروچ میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کا جلسہ، دونوں کو اسی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب وزیر اعظم کے علاوہ کسی دوسرے لیڈر کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ لیکن ساڑھے تین سال میں تصویر اس کےبالکل برعکس ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ اپنا گھر بھی اب بے گانہ ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن بی جے پی کے لیے سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ باہر کے یہ چہرے بھی گجرات میں نہیں چل پارہے ہیں۔ یوگی کا فلاپ روڈ شو اس بات کا ثبوت ہے۔ اگر آگے بھی یہی صورت حال بنی رہی ،تو بی جے پی کے لیے انتخابی تشہیری مہم بھی چلانی مشکل ہو جائے گی۔
حالانکہ اس خراب صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پارٹی نے دو کام کیے ہیں۔ ایک ہے میڈیا کا سہارا، دوسرا انتخابی اعلانات کا ’لالی پاپ‘۔ اس درمیان گجرات کے اندر ایک نیا ماحول بنانے کے لیے اس نے میڈیا ہاؤسز کے ذریعہ اسپانسرڈ کنکلیو کرائے ہیں جس میں امت شاہ کے اسپانسرڈ انٹرویو پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے جلسہ میں انتخابی اعلانات کی بارش کے ذریعہ عوام کے موڈ کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی اس کا پتہ کچھ دنوں یا ہفتوں کے بعد ہی چل پائے گا۔ لیکن کامیابی کے امکانات بہت کم ہی نظر آ رہے ہیں کیونکہ مودی نے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے 12 سالوں تک لوگوں کو اسی طریقے سے اندھیرے میں رکھا تھا۔ ایسی صورت میں مانا جا رہا ہے کہ گجرات کی عوام کو مزید اندھیرے میں رکھنا آسان نہیں ہے۔
اس درمیان بی جے پی کے اندر عام آدمی پارٹی کے انتخابات لڑنے سے ضرور ایک امید کی شمع روشن ہوئی تھی۔ لیکن عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور گجرات انچارج گوپال رائے کا یہ بیان کہ پارٹی وہیں لڑے گی جہاں مضبوط ہوگی اور بقیہ سیٹوں پر بی جے پی کو مقابلہ دینے والی پارٹی کی حمایت کرے گی، اس اعلان نے بی جے پی کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اس بیان کو لوگ بالواسطہ کانگریس کی حمایت ہی تصور کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بی جے پی کی مشکلیں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھنے کے امکان ہیں۔ بی جے پی اپنے خلاف چل رہی اس ہوا کا مقابلہ کس طرح کرے گی یہ اس کے لیے بہت بڑا سوال ہے۔
آخر میں ایک انتہائی اہم بات پر بھی توجہ دیں۔ گاندھی نگر کے انتخابی جلسہ میں وزیر اعظم نے ’وکاس واس بنام ونش واد‘ کا جو نیا نعرہ دیا ہے اس کے بھی چلنے کی گنجائش بہت کم نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ ’وِکاس‘ جس طرح سے گجرات میں مزاحیہ کردار بن گیا ہے اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات کی انگیٹھی پر اس پرانی ہانڈی کو چڑھانا بہت مشکل ہے۔ اور اس طرح کی کوئی بھی کوشش کسی طرح کے فائدہ کی جگہ نقصان ہی پہنچائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined