اگر کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھ لے جس سے وہ ڈر جائے تو سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اسے وہی مناظر دکھائی دیتے ہیں اور وہ رہ رہ کر چونک جاتا ہے۔ بالکل یہی کیفیت ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے حواس پر کانگریس کا خوف چھایا ہوا ہے۔ یا پھر وہ کانگریس فوبیا میں مبتلا ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کو تقریباً چار سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن مودی جی کے ذہن و دماغ پر چھایا کانگریس کا سایہ ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ وہ جب بھی منہ کھولتے ہیں کانگریس کی شان میں قصیدہ خوانی کے بغیر ان کی تقریر مکمل نہیں ہوتی۔ سات فروری کو جب وہ پارلیمنٹ میں صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر ہونے والی بحث کا جواب دینے کھڑے ہوئے تو ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی تقریر کو بھی کانگریس کے نام وقف کر دیا۔
انھوں نے ملک کی تقسیم کے لیے کانگریس اور خاص طور پر پنڈت جواہر لعل نہرو کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ انھوں نے الیکشن جیتنے کے لیے ملک کو تقسیم کروایا۔ یہ تاریخ سے ان کی ناواقفیت یا عمداً تاریخ کو نظرانداز کرنے کا ثبوت ہے۔ اسی لیے سینئر کانگریس لیڈر ویرپا موئیلی نے انھیں تین کتابوں کے نام بتائے ہیں اور کہا ہے کہ وہ تاریخ سے واقفیت کے لیے ان کا مطالعہ کریں۔ سچ بات یہ ہے کہ مودی حکومت کا ہر قدم الیکشن جیتنے کے لیے ہوتا ہے۔ انھوں نے آندھرا پردیش کی تقسیم کے لیے کانگریس کو برا بھلا کہا۔ حالانکہ اٹل بہاری واجپئی کے زمانے میں تین ریاستوں کو تقسیم کرکے مزید تین ریاستیں یعنی جھارکھنڈ، اترا کھنڈ اور چھتیس گڑھ بنا دی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ کانگریس کے زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی اسی کا گن گان کرتے تھے۔ آج ریڈیو ٹی وی کا کیا حال ہے پوری دنیا کو پتا ہے۔ راجیہ سبھا ٹی وی کو بقول غلام نبی آزاد بی جے پی ٹی وی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ نیوز چینل تو اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ حکومت کا قصیدہ پڑھنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس نے ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ یہ بھی ایک لفاظی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن چار برسوں میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ انھوں نے اپوزیشن سے کہا کہ بے روزگاری کی بات آپ کرتے ہیں روزگار کی کیوں نہیں کرتے۔ ارے بھائی روزگار ہوتو جبھی تو روزگار کی بات کی جائے۔ آپ نے ہر سال دو کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کی بات کہی تھی۔ یہ وعدہ کیا پورا ہو گیا۔ آپ تو منریگا اسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں ہر بے روزگار کو روزگار فراہم کرنے کی اسکیم کا مذاق اڑاتے اڑاتے پکوڑے بیچنے کی بات کرنے لگے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے نوجوان ا س بات کے لیے آپ کا کتنا مذاق اڑا رہے ہیں۔
آپ نے کہا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو کشمیر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ وہ وزیر اعظم نہیں تھے تو کیا ہوا وزیر داخلہ تو تھے اور انتہائی طاقتور وزیر داخلہ تھے۔ آپ کی اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کشمیر کو ایک ’’مسئلہ‘‘ مان رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ میں ہوں جس نے کہا کہ آج ملک جہاں پہنچا ہے (یعنی جتنی ترقی کی ہے) اس میں سابقہ حکومتوں کا یوگدان ہے۔ حالانکہ وہ یہ غلط کہہ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی ہر تقریر میں ’’70سال میں لوٹ لیا 70سال میں لوٹ لیا‘‘ کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر ممالک میں بھی ملک کے وقار کو مٹی میں ملانے سے نہیں چوکتے۔ آدھار کارڈ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے اس کو بڑھاوا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آدھار کے ذریعے وہ شہریوں کی شخصی آزادی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں کافی سخت ہے۔
وہ الزام عاید کرتے ہیں کہ کانگریس دور میں ملک کی بڑی آبادی 18 ویں صدی میں رہنے پر مجبور تھی۔ یہ تو اور لمبا پھینک دیا۔ ملک نے کانگریس کےدور حکومت میں جو عدیم المثال ترقی ہوئی ہے اس کی وہ گویا نفی کر رہے ہیں۔مودی جی میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو کبھی کسی ریاست کا بیٹا بتاتے ہیں کبھی کسی ریاست کا۔ انھوں نے یہ کہہ کر کہ آپ مجھ پر حملہ بولتے بولتے ہندوستان پر حملہ بولنے لگتے ہیں۔ گویا اب وہ ہندوستان ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آزادی کے بعد گاندھی جی نے کہا تھا کہ کانگریس کو ختم کر دینا چاہیے لیکن وہ اس کے تناظر کو گول کر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم غریبوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ غریبوں کو خوب معلوم ہے کہ آپ نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے کس کے لیے کام کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کانگریس کو وہ ہندوستان چاہیے جہاں ہزاروں لوگوں کی موت کے ذمہ داروں کو جہاز میں بٹھا کر غیر ملک لے جایا جائے۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ واجپئی جی کے زمانے میں اس وقت کے وزیر خارجہ دہشت گردوں کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر قندھار لے جا کر چھوڑ آئے تھے اور اس کی سزا ہندوستان آج تک بھگت رہا ہے۔ اس بارے میں وہ گجرات کے قتل عام کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ انھوں نے نیو انڈیا کی بات کہی۔ یعنی وہ نیو انڈیا جہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، جہاں جانوروں کے تحفظ کے نام پر انسانوں کا قتل عام کیا جائے۔ انھوں نے کئی پروجکٹوں کے شروع کرنے کی بات کہی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کانگریس کے دور کے پروجکٹوں کے نام بدل کر انھیں کو لاگو کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے دور میں عدلیہ مضبوط ہوئی ہے۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ سہراب الدین انکاونٹر معاملے کی سماعت کرنے والے جسٹس لویا کی پراسرار موت اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کی روشنی میں عدلیہ کتنی مضبوط ہوئی ہے۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو حقائق سے پرے ہیں۔
گویا وزیر اعظم کی تقریر تضادات کا پلندہ تھی۔ انھوں نے صرف وہ باتیں کہیں جو ان کو سوٹ کرتی تھیں۔ ان باتوں کو گول کر گئے جن سے ان کی بدنامی ہوتی ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے درست کہا کہ انھوں نے اپنی تقریر کا بیشتر حصہ ہمارے اوپر صرف کیا ملک اور ملکی ایشوز پر گفتگو ہی نہیں کی۔ یہی تو مودی کی خاصیت ہے کہ وہ ایشوز کو دوسری طرف منتقل کر دیتے ہیں اور ساری ہوا اپنے حق میں بنا لیتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز