جب چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کر دی گئی تو ملک کے انصاف پسند طبقات گہری سوچ میں مبتلا ہو گئے تھے۔ لیکن ان کو یہ امید بھی تھی کہ یہ ماحول ختم ہو جائے گا اور ملک ایک دن پھر اپنے روایتی اور تاریخی کلچر کو اپنا لے گا جس میں بقائے باہم کے نظریہ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ کچھ دنوں کے بعد حالات کچھ بہتر ہوئے بھی لیکن اب ایک بار پھر تقسیم پسند عناصر کو طاقت حاصل ہو گئی ہے اور بقائے باہم کے نظریے میں یقین رکھنے والے کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
بابری مسجد کے انہدام سے پریشان اور ملک میں تخریبی عناصر کی سرگرمیوں کو عروج حاصل ہونے سے تشویش زدہ ملک کے معروف شاعر کیفی اعظمی نے ’’دوسرا بن باس‘‘ کے زیر عنوان ایک نظم کہی تھی جس کا آغاز انھوں نے ان اشعار سے کیا تھا:
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
دوسری مدت کے لیے مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح ایک بار پھر شرپسند عناصر کے حوصلے بلند ہیں اس کے پیش نظر کیفی اعظمی کی یہ نظم شدت سے یاد آرہی ہے۔ آج پھر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ’’اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے‘‘۔ یہ ملک پہلے تو ایسا نہیں تھا کہ کسی سے اس کے مذہب کے برعکس نعرہ لگوایا جائے اور وہ نہ لگائے تو اس کو پیٹ پیٹ کر مار دیا جائے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
اور پھر ذرا دیکھیے کہ کس شخصیت کا نام لے کر قتل و خون کی یہ روایت رقم کی جا رہی ہے۔ مریادا پرشوتم رام چندر کے نام پر جن کو مسلمان بھی اسی طرح ایک عظیم شخصیت مانتے ہیں جس طرح ہندو مانتے ہیں۔ مسلمان بھی ان کا ویسے ہی احترام کرتے ہیں جیسے کہ ہندو کرتے ہیں۔ یہاں تک علامہ اقبال نے انھیں ’’امام ہند‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر ان کے نام پر مارا جا رہا ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
اس صورت حال سے ملک کے سیکولر طبقات شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ دانشور پروفیسر امرتیہ سین نے بھی اس پر اظہار تشویش کیا ہے۔ انھوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ آج رام کے نام پر لوگوں کو پیٹا جا رہا ہے اور مارا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھوں نے یہ بات مغربی بنگال کے تناظر میں کہی ہے لیکن اس کا اطلاق پورے ملک پر ہو رہا ہے۔ انھوں نے اگر چہ یہ کہا ہے کہ یہ مغربی بنگال کا کلچر نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک کے کسی بھی حصے کا کلچر نہیں ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں مذہب، ذات پات یا فرقے کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے اور جو یہ امتیازی رویہ ہے، یہ ختم ہونا چاہیے۔ جب کسی شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم فلاں نعرہ لگاؤ اور وہ نہیں لگاتا تو اس کی پٹائی کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ کلچر نہیں ہے جس پر ہمیں فخر تھا۔ حالانکہ انھوں نے حالیہ واقعات کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے لیکن وہ ان واقعات سے ضرور پریشاں خاطر ہیں جبھی انھوں نے ایسا بیان دیا ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
انھوں نے مزید کہا کہ جب کسی فرقے کا کوئی شخص گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرے تو یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ انھوں نے مغربی بنگال کے تناظر میں کہا کہ ہندو مہا سبھا نے بھی ایک بار ریاست میں لوگوں کو بانٹنے کے لیے یہی نعرہ یعنی جے شری رام کا نعرہ رائج کیا تھا۔ اب اسی مقصد سے ایک بار پھر یہی نعرہ رائج کیا جا رہا ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
پروفیسر امرتیہ سین تنہا وہ شخص نہیں ہیں جو جے شری رام کے نعرے کے سیاسی استعمال کے خلاف ہیں۔ بلکہ ملک کا ہر انصاف پسند اور سیکولر شخص اس کے خلاف ہے۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس نے اسے ایک ہتھیار کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔ اس ہتھیار کا استعمال پارلیمنٹ میں بھی کیا گیا اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بھی کیا گیا۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
ایک اور دانشور پروفیسر اپوروانند اسے لسانی قتل عام کہتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ نعرہ اب نعرہ نہیں رہ کر ایک ہتھیار میں تبدیل ہو گیا ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں حلف برداری کی مثال پیش کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس رجحان کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
جب پارلیمنٹ میں جے شری رام کا نعرہ لگے گا تو ظاہر ہے ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں گے جو اس نعرے کی آڑ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کیفی اعظمی نے اپنی نظم میں رام چندر جی کی زبانی کہلوایا ہے کہ:
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
لیکن اب تو صورت حال اس سے کہیں آگے تک جا چکی ہے۔ اب رام چندر جی کو بن باس پر بھیجنے کے لیے چھ دسمبر کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں روزانہ ہی بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
کیا یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔ ضرور بدل سکتی ہے بشرطیکہ ملک کے انصاف پسند اور سیکولر طبقات ان تنگ نظر عناصر کے خلاف جو کہ مذہب اور دھرم کی آڑ میں انسانوں کو تقسیم کر رہے ہیں، اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے خلاف بغاوت کر دیں۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
حالانکہ یہ آسان نہیں ہے۔ ان عناصر کو بہت زیادہ قوت حاصل ہو گئی ہے۔ حکومت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ اس خیال کے حامی ہیں کہ ہمیں وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ایک عارضی مرحلہ ہے جو کہ کسی نہ کسی دن ختم ہو جائے گا۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
ممکن ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے صحیح ہوں اور ہمیں وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ وقت کا انتظار کہیں مہنگا نہ پڑ جائے اور وہ وقت آئے ہی نا۔ کیونکہ فاشسٹ قوتیں جس طرح اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہی ہیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں جس طرح منتشر اور بے حوصلہ ہو گئی ہیں وہ تشویش کا باعث ہے۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Jul 2019, 9:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز