نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی میٹنگ میں حزبِ اختلاف کے کچھ وزرائے اعلیٰ کی عدم شرکت کو بی جے پی نے مودی کی مخالفت قرار دیا ہے۔ گویا یہ نیتی آیوگ کی نہیں بلکہ مودی کی میٹنگ تھی۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے بی جے پی کے لوگ مودی جی کو دیش اور دیش کو مودی جی قرار دیا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج 9سالوں بعد بھی نہ تو مودی دیش بن سکے اور نہ ہی دیش مودی بن سکا، جس کی تازہ مثال کرناٹک میں مودی جی کی ذلت آمیز شکست ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کرناٹک کے لوگ دیش کو کبھی نہ ہراتے۔ لیکن نیتی آیوگ کی میٹنگ میں اس عدم شرکت کے معاملے کو مودی جی کی مخالفت سے جوڑ کر بی جے پی نے خود کو ہی بے نقاب کر دیا۔ کیونکہ یہ وہی نیتی آیوگ ہے جس نے ملک میں دو سے زائد ایئرپورٹ کو کسی ایک کمپنی کو نہیں دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مودی جی نے 6 سے زائد ایئرپورٹ کو اپنے پرم متر اڈانی کے حوالے کر دیا۔
Published: undefined
بی جے پی کے لوگ مودی جی کی اس حکومت کو امرت کال قرار دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ نرملا تائی تو بجٹ پیش کرتے ہوئے بھی اس کا ذکرکرنے سے نہیں چوکی تھیں۔ نیتی آیوگ کے گورننگ کونسل کی میٹنگ دراصل اسی امرت کال کے ماتھے پر چندن لگانے کے لیے تھی جس میں 2047کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی ملک کے سامنے ایک ایسا منظرنامہ پیش کر دیا جائے کہ جس کی بنیاد پر مودی حکومت کو ترقی کا متبادل تصور کیا جائے اور جس کی بساط پر 2024 کے مہرے رکھے جاسکیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ بی جے پی خود کی طرح دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو بھی مودی کا مرہونِ سمجھ بیٹھی ہے۔ لیکن 8 سے زائد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے ترقی کے اس ہوائی محل کو تعمیر ہونے سے پہلے زمیں بوس کر دیا۔ ویسے بھی مودی جی کو ہوائی باتیں خوب پسند ہیں، اسی لیے مترکال، آتم نربھر، وکاس اور سمّان جیسے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال وہ خوب کرتے ہیں۔
Published: undefined
لیکن بھلا ہو کانگریس کا کہ اس نے مودی حکومت کے نوسال مکمل ہونے پر ان سے 9سوال کر ڈالے۔ کہاں تو ابھی نیتی آیوگ کی میٹنگ سے حزبِ اختلاف کے وزرائے اعلیٰ کی عدم شرکت پر ہی پچھاڑیں کھا رہے تھے اور کہاں کانگریس نے پورے ملک میں پریس کانفرنس کے ذریعے مودی حکومت سے سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں سینہ ٹھونک کر ’ایک اکیلا سب پر بھاری‘ کا نعرہ لگانے والے اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ بھاگتے ہیں تو وہ سوالات ہیں۔ اس لیے اس دوہری افتاد نے مودی حکومت کی حالت نَہ پائے رَفتَن ، نَہ جائے ماندَن سی کردی ہے۔ ایسے میں نیتی آیوگ کے ذریعے مصنوعی امرت کال کے شور سے مترکال کی بازگشت آنی لازمی ہے سو ایک بار پھر اڈانی صاحب منظرنامے پر نمودار ہوگئے ہیں۔ یہی بازگشت کرناٹک انتخابات کے دوران بھی سنائی دی تھی اور یہی اب کانگریس کے سوالوں سے ایک بار پھر سنائی دینے لگی ہے۔
Published: undefined
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی جی کے امرت کال میں ان کے پرم متر اڈانی صاحب پر ہی امرت کی ورشا کیونکر ہوئی؟ ایسی صورت میں تو یہ سوال مزید اہم ہوجاتا ہے جب سپریم کورٹ کی کمیٹی اور حکومتی ادارہ سے ہی اڈانی کو کلین چیٹ مل جائے۔ کیونکہ اگر اڈانی صاحب کے کاروبار میں کوئی خامی نہیں ہے تو پھر ان بیس ہزار کروڑ روپئے کا جواب بھی مل جانا چاہئے جو شیل کمپنیوں کے ذریعے اڈانی کی کمپنی میں لگائے ہیں۔ امرت کال میں اڈانی صاحب کے دولت میں بے پناہ اضافے کا اگر اجمالی تجزیہ ہی کردیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ مودی سرکار کا امرت کال دراصل مترکال ہے اور اسی مترکال میں مودی جی اپنے متروں کو نوازنے کا غیرمعمولی کارنامہ انجام دیئے ہیں اور اس کے لیے سام دام ڈنڈ بھید کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔
Published: undefined
مثال کے طو ر پر ملک کے دوسرے سب سے مصروف ترین ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹھیکے کو ہی لے لیجئے، جسے پچاس سال کے لیے اڈانی کو سونپ دیا گیا۔ اس ایئرپورٹ کا ٹھیکہ پہلے ’جے وی کے‘ نامی کمپنی کے پاس تھا جس کے مالک جے وینکٹ کرشنا ریڈی ہیں۔ جے وی کے ایئرپورٹ ہولڈنگس لمیٹیڈ، ایئرپورٹ اتھاریٹی آف انڈیا اور کچھ غیرملکی کمپنیوں نے مل کر جوائنٹ وینچر میں ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹیڈ کے نام سے کمپنی بنائی تھی۔ اس کے 50.5 شیئر جے وی کے کے پاس، 23.5 فیصد شیئر دو غیرملکی کمپنیوں کے پاس جبکہ 26 فیصد شیئر ایئرپورٹ اتھاریٹی آف انڈیا کے پاس تھا۔ 2018 میں حکومت کی پرائیویٹائزیشن کی پالیسی کے مطابق جب ملک کے کئی ہوائی اڈوں کا ٹھیکہ اڈانی کو مل گیا تو اڈانی صاحب کی نظر ممبئی کے ہوائی اڈے پر پڑی۔ لیکن مصیبت یہ تھی جب تک جے وی کے اس ٹھیکے سے باہر نہیں نکلتی، اڈانی صاحب کو یہ نہیں ملتا۔
Published: undefined
پھر ہوا یوں کہ جولائی 2020 میں اچانک جے وی کے گروپ کے مالکان کے گھروں وکمپنیوں پر ای ڈی و سی بی آئی کی چھاپے پڑنے شروع ہوگئے۔ الزام یہ تھا کہ 2012 سے 2018 کے درمیان ممبئی ایئرپورٹ کے ڈیولپمنٹ کے نام پر بدعنوانی کی گئی ہے۔ اس کے بعد جے وینکٹ کرشنا ریڈی انڈرگراؤنڈ ہوجاتے ہیں، ان پر ایف آئی آردرج ہوتی ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہے کہ اسی دوران جولائی 2022 میں خبر آتی ہے کہ جے وی کے اور غیرملکی کمپنیوں کی تمام حصہ داری کو اڈانی ایئرپورٹ ہولڈنگ نے خرید لیا۔ اس کے بعد ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹیڈ میں اڈانی کی حصہ داری 74فیصد ہوگئی اور وہ عملاً اڈانی صاحب کے دسترس میں آگیا۔ اس طرح اڈانی صاحب نے ملک کے دوسرے سب سے مصروف ترین ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اڈانی صاحب کے ذریعے ممبئی ائیرپورٹ کا ٹھیکہ حاصل کرنے بعد ریڈی گروپ پر ایجنسیوں کی کارروائی اچانک سرد پڑگئی۔
Published: undefined
اڈانی کو ممبئی ایئرپورٹ دینے کی مخالفت وزارتِ مالیات اور پلاننگ کمیشن میں بھی ہوئی تھی۔ پلاننگ کمیشن نے ایک گائیڈ لائن بنائی تھی جس کے مطابق اڈانی کی کمپنی کو ممبئی ایئرپورٹ کا ٹھیکہ نہیں مل رہا تھا۔ ہوا یوں کہ پرائیویٹائزیشن پروگرام کے تحت جب ہوائی اڈوں کے ٹھیکے دینے کے لیے بولیاں طلب کی گئیں تو مرکز کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اپریزل کمیٹی (پی پی پی اے سی) نے 11 دسمبر 2018 کو شہری ہوا بازی کی وزارت کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔ اس میٹنگ کے دوران وزارت خزانہ کی طرف سے دیئے گئے نوٹ میں کہا گیا کہ جو ہوائی اڈے کمائی کے لحاظ سے انتہائی اہم ہیں، انہیں صرف ایک ہی کمپنی کو دینا درست نہیں ہے۔ ایک کمپنی کو دو سے زیادہ ہوائی اڈے نہ دیئے جائیں۔ 2019 میں ہوئی ٹینڈرنگ میں بھی پلاننگ کمیشن اور وزارتِ مالیات نے اعتراض کیا تھا۔ پھر اس کے بعد کھیل کچھ اس طرح ہوا کہ پلاننگ کمیشن نے اپنی گائیڈ لائن کو تبدیل کرتے ہوئے اسے ایسا بنا دیا کہ اڈانی صاحب کی کمپنی اس کے فریم میں پوری طرح سے فٹ بیٹھ گئی۔
Published: undefined
لیکن بات یہی پر ختم نہیں ہوتی۔ ممبئی ایئرپورٹ کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے بعد اڈانی صاحب کو ایک اور زبردست تحفہ دیا گیا۔ ہوا یوں کہ ایئرپورٹ کو وسیع کرنے کے لیے اڈانی کو 8 کروڑ مربع فٹ کا تعمیراتی کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ کا علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ تعمیر عمودی ہوسکتی ہے یعنی اسے بلند نہیں کیا جاسکتا۔ بلند کرنے کی صورت میں ہوائی جہازوں کی آمدورفت میں رخنہ پڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس تعمیر پر اڈانی صاحب کی کمپنی نے حکومت سے 5 فیصد ایف ایس آئی (فلور اسپیس انڈیکس) لیا جس کے حساب سے یہ تعمیراتی رقبہ 40 کروڑ اسکوائر فٹ کا ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایئرپورٹ کا ایریا ہے اور وہاں جگہ کی قلت ہے، اس لیے وہاں پر 40 کروڑ اسکوائر فٹ کی عمودی تعمیر نہیں ہوسکتی، پھر ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایف ایس آئی کہیں اور استعمال کی جائے گی، جسے مہاراشٹر میں ’ٹی ڈی آر‘ یعنی ٹرانسفریبل ڈیولپمنٹ رائٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ایف ایس آئی کے دینے کے بعد بھی ایک اور کھیل ہوا۔
Published: undefined
ہوایوں کہ مہاراشٹر حکومت نے ایک سرکولر جاری کرکے اس ایف ایس آئی پر عائد ہونے والے 5 لاکھ کروڑ روپئے کے پریمیم چارج کو منسوخ کر دیا۔ اس طرح اڈانی صاحب کو 5 فیصد زائد ایف ایس آئی کہیں اور استعمال کرنے کی آزادی مل گئی اور اس کے ساتھ ہی 5 لاکھ کروڑ روپئے کا گھر بیٹھے فائدہ ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ آدمی کو شرم اسی وقت آتی ہے جب تک کہ وہ لباس میں رہے، لیکن جب وہ برہنہ ہوجاتا ہے تواس کی شرم بھی مرجاتی ہے۔ اڈانی کو اس قدر بے شرمی کے ساتھ فائدہ پہنچانے والے شاید برہنہ ہوچکے ہیں کہ اب انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ اتنی بمپر کمائی کے بعد اگر اڈانی صاحب دنیا کے تیسرے امیر شخص نہیں بنتے تو سرمائے کی طاقت پر سے لوگوں کا اعتماد ہی اٹھ جاتا۔ لیکن بھلا ہو ہینڈن برگ ریسرچ کا کہ اس نے مصنوعی طریقے سے پھلائے گئے اڈانی صاحب کے اس غبارے میں ایسی سوئی چبھوئی کہ آج تک ہوا نکلتی ہی جارہی ہے۔
Published: undefined
اس لیے نیتی آیوگ کی میٹنگ میں اگر کچھ حزبِ اختلاف کے وزرائے اعلیٰ شریک نہیں ہوئے تو یہ وجہ نہیں ہے کہ انہوں نے مودی کی مخالفت میں ایسا کیا، بلکہ انہیں معلوم ہے کہ نیتی آیوگ کے کندھے پر بندوق رکھ کر مودی حکومت اپنے متروں کو ہی فائدہ پہنچائے گی اور وہ کسی طور اس میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس عدم شرکت کی دوسری وجہ دہلی حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کے آرڈیننس کو بتایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی حکومت جب کسی ریاستی حکومت پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر پاتی تو پارلیمنٹ میں اپنی خوفناک اکثریت کو استعمال کرتی ہے۔ بی جے پی کے روی شنکر پرساد اگر اسے مودی کی مخالفت قرار دینے کے بجائے خاموش رہ جاتے تو غالبا بی جے پی کا تھوڑا بہت بھرم رہ جاتا لیکن انہوں نے اسے مودی کی مخالفت قرار دے کر کانگریس کے سوالات کو مزید مضبوطی عطا کر دی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined