سیاسی

مودی ناقابل تسخیر نہیں رہے — ظفر آغا

تنظیم بنانا اور اسے جیتنے لائق بنانا ایک طویل عمل ہے۔ سونیا گاندھی نے 2004 میں سول سوسائٹی کو اس میں شامل کیا اور یہ کارگر ثابت ہوا۔ کانگریس کو سونیا گاندھی کی اس پالیسی پر پھر سے غور کرنا ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا کانگریس صدر راہل گاندھی اور وزیر اعظم نریندر مودی

آپ کو اچھا لگے یا نہ لگے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہماچل پردیش اور گجرات کی انتخابی جنگ میں نریندر مودی ایک فاتح کی طرح ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ہماچل پردیش میں برسوں سے ایک بار کانگریس اور ایک بار بی جے پی کی حکومتیں بنتی رہی ہیں اور اس لحاظ سے بی جے پی کی باری تھی اور اس نے فتح حاصل کی۔ اس لیے ہماچل پردیش کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن گجرات کا انتخاب نریندر مودی کے تین سال کی حکومت پر عوامی مینڈیٹ ضرور کہا جائے گا۔ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا بالکل مناسب ایشو اٹھا کر گجرات میں مودی پر حملہ بولا۔ کانگریس نے پورے گجرات میں ایک سماجی ہم آہنگی بناتے ہوئے پاٹیدار-پٹیل، او بی سی اور دلتوں کے ساتھ اقلیتوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر کثیر رنگی محاذ تیار کیا اور فضا اپنے حق میں سازگار کر لیا۔ گجرات کے تین نوجوانوں ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکور کی جوڑی نے کھل کر کانگریس کی حمایت کی۔ لیکن نریندر مودی اس درمیان اپنے پرانے ہی رنگ میں نظر آئے۔ لوگوں کو تقسیم کرنے اور بے شرمی کی حد تک جھوٹ بولنے کا رویہ انھوں نے جاری رکھا۔ مودی کا یہ چہرہ 2002 کے گودھرا فساد کے بعد سب نے دیکھا ہے۔ لیکن اس مرتبہ مودی گھبرائے ہوئے نظر آئے۔ ریلیوں میں لوگوں کا آنا اور گجرات کے کئی علاقوں میں بی جے پی کارکنان کی پٹائی سے مودی کی حالت خستہ ہو گئی تھی۔ ایسے میں مودی نے پھر سے وہی ہتھکنڈا اختیار کیا، فرقہ وارانہ اور علاقائی ایجنڈے کو انتخابات کا اصل ایشو بنا دیا۔ مودی کے اس ایجنڈے کے سبب 2017 کے گجرات انتخابات کو اس لیے بھی یاد کیا جائے گا کہ کس طرح ایک وزیر اعظم نے ایک سابق وزیر اعظم پر پاکستان کے ساتھ مل کر گجرات میں انتخاب جیتنے کی سازش تیار کرنے کا الزام لگایا۔ انتخاب جیتنے کے لیے مودی نے ساری حدیں پار کر دیں، اور وہ انتخاب جیت بھی گئے۔

لیکن کیا مودی ناقابل شکست رہ پائے؟ کیا 2017 کے گجرات انتخابات کے بعد بھی کہا جائے گا کہ مودی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا؟ لوگوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی بنانے میں مودی کو مہارت حاصل رہی ہے۔ وہ اکثریتی طبقہ یعنی ہندوﺅں کو مسلمانوں کا خوف دکھاتے ہیں، وہ جذبات کو بھڑکاتے ہیں، وہ اکثریتوں میں ڈر کا ماحول پیدا کرتے ہیں جو تشدد کی صورت اختیار کرتے ہوئے پولرائزیشن میں بدل جاتا ہے۔ اور اس سب کے نتیجے میں مودی کو بی جے پی کی حمایت کرنے والا ایک سخت گیر اور کٹر ہندو ووٹ بینک حاصل ہوتا ہے۔ دراصل ہر انتخاب میں آر ایس ایس اس طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتا رہا ہے۔ لیکن کوئی دیگر لیڈر اس ہتھکنڈے کا استعمال طویل مدت تک اتنا نہیں کر پایا جتنا مودی کر رہے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک ڈیڑھ دہائی سے وہ اسی ہتھکنڈے کے زور پر فاتح ہوتے رہے ہیں۔

انھوں نے گودھرا کے بعد ہوئے گجرات انتخابات میں ایکشن-ری ایکشن کا فارمولہ اختیار کیا اور خود کو ایک گجراتی ہندو رکشک کی شکل میں پیش کیا۔ ایسا رکشک جو مسلم قاتلوں سے ہندوﺅں کی حفاظت کرے گا۔ فارمولہ کام کر گیا، اور مودی پہلا انتخاب جیت گئے۔ دوسری مرتبہ انھوں نے ہندوﺅں کو اس دہشت گردی کا خوف دکھایا جو نام نہاد طور پر مسلم پھیلاتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے میاں مشرف اور ہمارے پانچ ان کے پچیس کا فارمولہ اپنایا۔ ہندو بہکاوے میں آ گئے اور مودی پھر جیت گئے۔ تیسری مرتبہ انھوں نے گجرات ماڈل کی بات تو کی لیکن مسلمانوں کو دشمن کی شکل میں بھی پیش کیا۔ یہی پالیسی مودی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی اختیار کی۔

ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک خیالی مسلم دشمن بنا کر ہندوﺅں میں خوف پیدا کرنا اور انھیں اپنے ووٹ بینک میں بدلنا ہی مودی کی اصل پالیسی رہی ہے۔ لیکن اب مودی اس پالیسی کو ذرا چالاکی یا یہ کہیں کہ دھوکہ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اس بار ان کے سامنے چیلنج مشکل تھا۔ مودی کو شکست نظر آنے لگی تھی۔ کم از کم پہلے دور کے گجرات ووٹنگ کے بعد تو ایسا ہی ہوا تھا۔ ریلیوں میں بھیڑ کا نہ آنا اور بی جے پی کارکنان کے پست حوصلے نے مودی کی نیند اڑا دی۔ مودی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر احمد آباد ہاتھ سے پھسلا تو دہلی کی گدی جانے میں وقت نہیں لگے گا۔ ایسے میں مودی نے گجرات انتخابات کو زندگی اور موت کا سوال بنا لیا۔ اس کے لیے مودی نے ایسا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس بھی مودی کی ہی کشتی میں سوار ہے۔ اگر مودی کمزور ہوتے ہیں تو ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کا اس کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسے میں مودی-بھاگوت کی جوڑی نے گجرات انتخاب میں شکست سے بچنے کے لیے اپنے ترکش کے ہر تیر کا استعمال کیا۔ دونوں نے تقسیم کرنے والا کارڈ کھیلا اور اسے انتہائی بے شرمی کے ساتھ دوسرے دور کی ووٹنگ کے لیے استعمال کیا۔ مودی نے پاکستان کو نئے سرے سے ایسے دشمن کے طور پر پیش کیا جو ایک گجراتی وزیر اعظم کی حکومت گرانا چاہتا ہے۔ اس بہانے انھوں نے خود کو گجرات کے ایسے ’دھرتی پتر‘ کی شکل میں پیش کیا جو گجراتی وقار کے لیے جی جان لگانے کو تیار ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح مودی نے ایک غیر معروف شخص سلمان نظامی کے فیس بک پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کو گجرات انتخابات میں شامل کیا، اس کے بعد مودی نے منی شنکر کے اس بیان کو ایشو بنایا جس میں ’نیچ‘ لفظ کا استعمال ہوا تھا۔ یہ دونوں باتیں انھوں نے اس طرح پیش کیں جیسے یہ ایک گجراتی وزیر اعظم کی بے عزتی کرنے والی بات ہو۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ سیاست کو مزید پستی کی جانب لے جاتے ہوئے مودی نے منی شنکر ایر کے گھر پر ہوئی ایک سابق پاکستانی وزیر کی میٹنگ کو ایشو بنا دیا۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم عہدہ کے وقار کو درکنار کرتے ہوئے مودی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پر الزام عائد کر دیا کہ وہ ان کے خلاف سازش تیار کر رہے ہیں۔ مودی کے اس اشارے پر آر ایس ایس کی مشنری نئے جوش کے ساتھ میدان میں اتر گئی۔ اس نے گھر گھر جا کر یہ بات پھیلائی کہ اگر مودی ہار گئے تو گجرات میں ’مسلم راج‘ ہو جائے گا۔ کانگریس پارٹی کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے وہ اکیسویں صدی کی ’مسلم لیگ‘ ہو۔ لوگوں کو کانگریس کی حکومت کے دوران گجرات میں ہوئے فساد کی یاد دلائی گئی۔ یہ وہی پرانا فارمولہ تھا جس میں ہندوﺅں کو مسلمانوں کا خوف دکھایا گیا اور انھیں پولرائز کرنے کی کوشش کی گئی۔ مودی کو نئے سرے سے ہندو رکشک کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اس طرح ایک بار پھر بی جے پی نے گجرات فتح کر لیا۔

فرقہ پرستی اور علاقائیت پر مبنی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے مودی نے بے شک گجرات انتخاب جیت لیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹیلوں، دلتوں اور او بی سی کا بڑا حصہ بی جے پی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس طرح گزشتہ 15 سالوں سے ملک کے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کی مودی کی شبیہ اور ہندو ووٹوں پر مودی کی یکطرفہ گرفت بھی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک قابل غور بات بھی ہے۔ گجرات نے دکھایا ہے کہ کس طرح کانگریس نے جو سماجی اتحاد یا سوشل انجینئرنگ کی، اس سے مودی کے ٹھوس ہندو ووٹ بینک میں سیندھ لگی ہے۔ سیاسی طور پر بہت سے لبرل لوگوں کو یہ بات بھلے ہی عجیب لگے لیکن یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سوشل انجینئرنگ کا استعمال کر کے ریزرویشن وغیرہ معاملوں اور بے روزگاری و کسانوں کے مسائل اٹھا کر ہندو فرقہ پرستی سے نمٹا جا سکتا ہے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ راہل گاندھی سے متعلق لوگوں کا جوش اور کانگریس کی سیٹوں میں قابل قدر اضافہ اشارہ دیتا ہے کہ لبرل ہندوستانی روایتیں دوبارہ زندہ ہو رہی ہیں۔ ضرورت ہے تو بس سماجی ایشوز کو سامنے لانے کی اور بغیر ’نرم ہندوتوا‘ کے لبرل ہندو روایتوں کی یاد دلانے کی۔ راہل گاندھی نے یہ تجربہ گجرات میں کر کے دکھا دیا جس کے نتیجہ میں طویل مدت بعد کانگریس کی سیٹوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ یہی پالیسی 2019 میں بھی کام کر سکتی ہے۔ اس کے لیے یو پی اے کی طرح کا ایک غیر بی جے پی محاذ اور امیدوار سامنے لانا ہوگا۔ لیکن بغیر تنظیمی طاقت کے غیر بی جے پی ماحول بنانا ذرا مشکل کام ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے۔

تنظیم بنانا اور اسے جیتنے لائق بنانا ایک طویل عمل ہے۔ سونیا گاندھی نے 2004 میں سول سوسائٹی کو اس میں شامل کیا اور یہ کارگر ثابت ہوا۔ کانگریس کو سونیا گاندھی کی اس پالیسی پر پھر سے غور کرنا ہوگا۔ کیونکہ خالص فرقہ وارنہ طور پر جیتے گئے گجرات کے بعد بی جے پی-آر ایس ایس کی جوڑی اسے 2019 کے عام انتخابات میں ضرور اپنائے گی۔ وہ رام مندر تعمیر کا راستہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ہندو جذبات اپنے عروج پر پہنچ جائیں۔ ایسی صورت میں دوسری پارٹیوں کی مدد سے کانگریس کو گجرات سے سبق لیتے ہوئے 2019 کی پالیسی پر ابھی سے کام شروع کرنا ہوگا۔ کانگریس کی کمان اب نوجوان اور جوشیلے راہل گاندھی کے ہاتھوں میں ہے جو ذات اور مذہب کی دیوار توڑ کر سب کے ساتھ گھل مل سکتے ہیں۔ اس طرح ملک میں دن بہ دن بڑھ رہی نفرت کی سیاست کو دفن کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے والی ہے کہ مودی باز نہیں آئیں گے۔ وہ قومی سطح پر پولرائزیشن کریں گے کیونکہ انھیں یہی کرنا آتا ہے۔ راہل کو اپنے اس بیان پر قائم رہنا ہوگا جس میں وہ پیار اور بھائی چارہ کی سیاست کی بات کرتے ہیں۔ سوشل انجینئرنگ کرتے ہوئے روزگار، گرتی معاشی حالت جیسے ایشوز کو زندہ رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کوئی نہیں کہہ پائے گا کہ مودی کو ہرایا نہیں جا سکتا۔ ہندوستانی جمہوریت اپنی جڑوں میں مضبوط ہے اور پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined