سیاسی

اکبر کا استعفی: الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

تمام ہنگاموں کے بعد اکبر نے جو استعفی دیا ہے اس کا سہرا ان خاتون صحافیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے پوری بہادری کے ساتھ نہ صرف اپنی بات کہی بلکہ حکومت کا سامنا بھی کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جو کئی دن پہلے ہو جانا چاہئے تھا وہ بالآخر آ ج ہوا۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور اور سینئر صحافی ایم جے اکبر خاتون صحافیوں کے الزامات کے بعد مستعفی ہو گئے۔ اکبر کے استعفی کو ’می ٹو‘ مہم کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ویسے تو اتوار کو ہی کئی چینلس پر یہ خبر نظر آ گئی تھی کہ نائیجیریا سے واپسی پر انہوں نے وزیر کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے لیکن شام تک اس خبر کی تردید ہوئی اور کہا گیا کہ اکبر اس معاملہ میں الزام لگانے والی خاتون صحافی پریا رمانی پر ہتک عزت کا کیس درج کریں گے اور پھر پیر کے روز انہوں نے ایسا کیا بھی ۔جیسی امید تھی اکبر کی ہٹ دھرمی بی جے پی اور اکبر کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئی اور بی جے پی ترجمان و رہنماؤں کے لئے اس معاملہ کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ۔

استعفی دینے اور نہ دینے میں اکبر کا کوئی کردار نہیں تھا ۔ اکبر چاہے کتنے بھی بڑے صحافی رہے ہوں لیکن نائیجیریا سے واپسی پر استعفی نہ دینے میں ان کی کسی عقل اور دور اندیشی کا دخل نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ اکبر نے اب اپنی مرضی سے استعفی دیا ہے ۔ بی جے پی اب کود کود کر یہ بتانے کی کوشش کرے گی کہ وزیر اعظم نے اکبر کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے، ساتھ میں یہ بھی کہا جائے گا کہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کی اکبر سے ملاقات کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے ۔ اس حقیقت کے با وجود کہ اجیت ڈوبھال نے کل اکبر سے ملاقات کی تھی لیکن اکبر کے استعفی کے پیچھے نہ تو وزیر اعظم کا کوئی کردار ہے اورنہ ڈوبھال کا ۔ اگر یہ دونوں وجہ ہیں تو نائیجیریا سے واپسی پر فوراً اکبر کا استعفی کیوں نہیں لیا گیا یا! اگر اکبر کے استعفی کا کریڈٹ این ایس اے کو دیا گیا تو یہ سوال کھڑا ہو گا کہ کیا این ایس اے کا یہ کام ہے ۔ دوسرا، اگر وزیر اعظم کو اس کا کریڈٹ دینے کی کوشش کی گئی تو لوگ سوال کریں گے کہ اس قدم کی تاخیر کی وجہ کیا تھی اور وزیراعظم کی کابینہ کا ایک وزیر اپنی مرضی سے اپنے دفاع میں دو روز قبل عدالت کا دروازہ کیسے کھٹکھٹا سکتا ہے ۔ کیا وزیر مملکت پر وزیر اعظم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ جب اکبر اپنی مرضی سے استعفی دے نہیں سکتے ، ساتھ میں یہ مسئلہ قومی سلامتی کا نہیں تھا کہ اجیت ڈوبھال کو اس میں دخل اندازی کرنی پڑے، ادھر اکبر اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وہ وزیر اعظم کو نظر انداز کر کے استعفی نہ دیں اور عدالت چلے جائیں ۔ دراصل اکبر کے استعفی کی اصل وجہ خاتون صحافیوں کی اکبر کے خلاف بڑھتی تعداد اور سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف بنتا ماحول ہے۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور اس کے بعد عام انتخابات نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ اکبر کی بَلی دے دیں ۔ مودی اینڈ پارٹی کی کوشش تھی کہ اس مسئلہ پرپہلے ڈرانے کی کوشش کی جائے اور ان کو امید تھی کہ ایک بار اکبر عدالت چلے جائیں گے تو خاتوں صحافی ڈر جائیں گی اور پیچھے ہٹ جائیں گی۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا ۔ اکبر کے عدالت جانے کے بعد خاتون صحافی برادری بھڑک گئی اور ان کی مہم میں مزید شدت آنے لگی ۔ بس اس شدت کو دیکھ کر مودی حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے اور اس نے اپنے مسلم وزیر کی بَلی دے دی۔

Published: 17 Oct 2018, 8:08 PM IST

جس دن بی جے پی صدر امت شاہ نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’کسی کے الزام لگانے سے کوئی مجرم نہیں ہو جاتا یہ دیکھنا ہوگا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ‘‘ تو اس کے فورا بعد یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ حکومت اکبر کااستعفی لینے کے موڈ میں نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا بھی ۔ لیکن اس کے بعد جس انداز میں خواتین صحافی اکبر کے عدالت پہنچنے کے بعد میدان میں اتریں اس سے بی جے پی اور حکومت دونوں کی ہوا خراب ہو گئی۔ اس کا نمونہ کل اس وقت دیکھنے کو ملا جب بی جے پی کے تیز ترار ترجمان سمبت پاترا خواتین کے الزامات کے جواب دینے سے بھاگتے نظر آئے اور اس واقعہ نے یہ واضح پیغام دے دیا کہ اکبر کو وزارت میں بنائے رکھنا پارٹی کے لئے مصیبت کھڑی کر دے گا ۔ لیکن اس سارے معاملہ میں اگر کسی کی جیت ہوئی ہے تو وہ ہیں خواتین جنہوں نے نہ صرف بہادری کامظاہرہ کیا بلکہ اکبر کو مستعفی ہونے پر مجبور بھی کیا۔

اس حقیقت کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اب ’می ٹو‘ مہم تھمنے والی نہیں اور اس میں جو شدت آئے گی وہ سماج کے لئے بہت تباہ کن ہو سکتی ہے کیونکہ خواتین کی اس بڑی کامیابی کے بعد کچھ ایسی مچھلیاں بھی سامنے آ جائیں گی جو پوری مہم کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اکبر کے استعفی کے بعد بی جے پی بہت حملہ آور ہونے والی ہے۔

Published: 17 Oct 2018, 8:08 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 17 Oct 2018, 8:08 PM IST