سیاسی

پارلیمانی اجلاسوں کی بربادی اور بی جے پی کا اصل چہرہ

اننت کمار کے بیان نے سونیا گاندھی کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا اور انھوں نے کہا کہ وزیر موصوف جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کی اس دروغ بیانی پر کانگریس نے مراعات شکنی کا نوٹس دیا ہے۔

تصویرشوسل میڈیا
تصویرشوسل میڈیا 

پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ 29 جنوری سے 9 فروری اور پھر 5 مارچ سے 6 اپریل تک دو مرحلوں میں چلنے والے اجلاس پر مجموعی طور پر دو سو کروڑ روپے کا صرفہ آیا لیکن کام کچھ بھی نہیں ہوا۔ پی آر ایس لجسلیٹیو کے اعداد و شمار کے مطابق لوک سبھا میں صرف 14گھنٹے اور راجیہ سبھا میں صرف 11 گھنٹے بجٹ پر بحث ہوئی۔ اگر کام کے اعتبار سے دیکھیں تو لوک سبھا میں 36 گھنٹے اور راجیہ سبھا میں 53 گھٹنے کام ہوا۔ یعنی لوک سبھا میں 21 فیصد اور راجیہ سبھا میں 31 فیصد کام ہوا۔ نقصان کی بات کریں تو دوسرے مرحلے میں راجیہ سبھا میں 121 گھنٹے برباد ہوئے۔ مختلف ایشوز جیسے کہ آندھرا پردیش کو خصوصی اختیار کے معاملے، بینک گھوٹالے، کاویری واٹر مینجمنٹ بورڈ کے قیام، مجسمہ شکنی، ایس سی ایس ٹی قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور کاس گنج میں قانون و انتظام جیسے امور پر ہنگامے ہوتے رہے اور دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی ہوتی رہی۔

راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائڈو اور لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے اس بارے میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم نریند رمودی، پارلیمانی امور کے وزیر اننت کمار، بی جے پی صدر امت شاہ اور دوسرے بی جے پی لیڈروں نے اس کے لیے اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس کو قصوروار قرار دیا ہے۔ اننت کمار نے تو دو قدم آگے جا کر لوک سبھا میں کانگریس صدر راہل گاندھی اور سابق صدر سونیا گاندھی کا نام لیا اور ان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ ان کی اس دیدہ دلیری پر سونیا گاندھی نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ حالانکہ وہ کسی بھی معاملے پر بہت کم بولتی ہیں لیکن اننت کمار کے بیان نے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا اور انھوں نے کہا کہ وزیر موصوف جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کی اس دروغ بیانی پر کانگریس نے مراعات شکنی کا نوٹس دیا ہے۔

لیکن یہ ہنگامے کیوں ہوتے رہے اور کوئی کام کیوں نہیں ہو سکا۔ اگر ہم حکمراں محاذ کے گمراہ کن بیانات کے پرے غور سے دیکھیں تو بہت واضح طور پر نظر آئے گا کہ اس کی ذمہ دار اپوزیشن نہیں بلکہ خود حکومت ہے۔ حکومت کی ایک سابق حلیف جماعت تیلگو دیسم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس سمیت پانچ جماعتوں نے لوک سبھا میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا نوٹس دیا ہے۔ لیکن لوک سبھا میں حکومت کے قریب مانی جانے والی ایک جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے کے ممبران اسی دن سے ایوان کے وسط میں جا کر ہنگامے کرنے لگے۔ حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کرانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس کا رویہ اس کے بالکل برعکس رہا۔ جانکاروں کے مطابق حکومت کے اشارے پر اے آئی اے ڈی ایم کے کے ممبران ہنگامہ آرائی پر اتر آئے تاکہ بحث نہ ہو سکے اور حکومت کی ناک بچی رہے۔ اسپیکر چند منٹ تک انتظار کرتیں اور یہ کہہ کر ایوان کی کارروائی ملتوی کر دیتیں کہ ہاؤس آرڈر میں نہیں ہے۔

Published: undefined

لیکن حکومت کی جانب سے اس کی کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی کہ اپوزیشن سے رابطہ قائم کیا جائے اور اسے ایوان چلانے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ اس نے اے آئی اے ڈی ایم کے کے ممبران سے کبھی اپیل نہیں کی کہ وہ ایوان چلنے دیں۔ کوئی کل جماعتی میٹنگ اس بارے میں نہیں بلائی گئی۔ جبکہ اس سے قبل کی این ڈی اے حکومت میں جب بھی ایسا مرحلہ آتا تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی پیش قدمی کرتے اور تعطل دور کرواتے۔ اسی طرح یو پی اے حکومت میں بھی اصل اپوزیشن بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن اس حکومت نے اس پارلیمانی روایت کو کبھی بھی اختیار نہیں کیا اور ایوان کا اجلاس برباد ہو جانے دیا۔

حکومت نے اس معاملے میں اپوزیشن اور بالخصوص کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن بی جے پی نے کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے اس پر نظر نہیں ڈالی کہ جب وہ اپوزیشن میں تھی تو کیا کرتی رہی ہے۔ یہاں ایک بات اور عرض کر دیں کہ لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہے اور وہیں سب سے زیادہ وقت کا نقصان ہوا ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت ہے اور وہاں نقصان قدرے کم ہوا ہے۔ بہر حال آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ بی جے پی جب اپوزیشن میں تھی تو اس کا رویہ کیا تھا۔

راجیہ سبھا کے موجودہ چیئرمین ایم وینکیا نائڈو یہ بھول گئے کہ یو پی اے حکومت کے دوران اس وقت کی قائد حزب اختلاف سشما سوراج نے ہنگامہ آرائی کا جواز پیش کرتے ہوئے لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ ’’پارلیمنٹ کو چلنے نہ دینا جمہوریت کی دیگر شکلوں میں سے ایک شکل ہے‘‘۔ جبکہ راجیہ سبھا میں ان کے ہم منصب ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ’’پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرکے ہم نے عوام کو ایک پیغام دیا ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں رخنہ اندازی کو پارلیمنٹ کو کام کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک طرح کا کام ہے۔ لیکن اب جبکہ کانگریس اپوزیشن میں ہے اور اس نے کچھ ایشوز پر حکومت سے جواب مانگا تو یہی ارون جیٹلی نے کانگریس کو ایک ’’رخنہ انداز جماعت‘‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔

یو پی اے اول اور یو پی اے دوم دونوں ادوار میں بی جے پی نے حکومت کو کام نہیں کرنے دیا تھا۔ وہ مختلف ایشوز پر ہنگامہ آرائی کرکے ایوان کی کارروائی ملتوی کراتی رہی۔ یو پی اے دوم میں بی جے پی نے زیادہ ہنگامہ کیا تھا۔ چودہویں لوک سبھا میں کام کا 13 فیصد وقت ہنگاموں کی نذر ہوا تھا جبکہ پندرہویں لوک سبھا میں یہ مقدار بڑھ کر 39 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ 2010 میں 2G اسکیم کے معاملے پر پورا سرمائی اجلاس برباد ہو گیا تھا۔ 2012 میں بھی اسی طرح بی جے پی ہنگامہ کرتی رہی۔ 2014 میں بھی اس کا ہنگامہ جاری تھا اور سشما سوراج نے اعلان کیا تھا کہ یہ بھی ایک قسم کی جمہوریت ہے اور ’’ہم حکومت اور اس کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو ٹھپ کر رہے ہیں‘‘۔

آج جب بی جے پی اقتدار میں ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو پنڈت جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے بیانات یاد آرہے ہیں اور وہ ان بیانات کے کندھے پر بندوق رکھ کر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار دیکھیں تو پتا چلے گا کہ این ڈی اے کی موجودہ حکومت کی بہ نسبت یو پی اے میں پارلیمنٹ کو زیادہ ٹھپ کیا گیا تھا۔ پورا ریکارڈ حکومت کے پاس بھی ہے اور اعداد و شمار رکھنے والے اداروں کے پاس بھی ہے۔ لیکن آج بی جے پی والے یہ کہہ کر بطور اپوزیشن اپنی ہنگامہ آرائی کو جائز قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کرپشن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور یہ لوگ کرپشن کی حمایت کر رہے تھے۔

بی جے پی اور حکومت سے گزارش ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کہ جب تم اپوزیشن میں تھے تو تمھارا کیا رویہ تھا، کیا تم حکومت چلنے دیتے تھے، کیا پارلیمنٹ کو ٹھپ کر کے تم نے عوام کے اربوں روپے کا نقصان نہیں کیا تھا۔ آج تم اقتدار میں ہو تو اسی کام کے لیے اپوزیشن کی مذمت کر رہے ہو جس کام میں تم نے ریکارڈ بنایا ہے۔ موجودہ اپوزیشن پھر بھی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے لیکن سابقہ اپوزیشن نے تو تعاون نہ کرنے کی جیسے قسم کھا رکھی تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined