سیاسی

مودی-شاہ کی غلط پالیسیوں سے بی جے پی میں بھگدڑ

بی جے پی سے ناراض ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کی بڑی تعداد نے ان پارٹیوں میں اپنے امکانات تلاش کرنا شروع کر دئیےہیں جہاں سے وہ بی جے پی میں آئے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا نریندر مودی اور امت شاہ

حال ہی میں نسل پرستی کی خوبی اور خامی پر ایک مباحثہ میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے کہا کہ ’’سیاسی منظرنامے میں بات کریں تو سیاسی خاندانوں کے جانشینوں کا آپ کی جگہ سنبھالنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔‘‘

وہ یہ بات راہل گاندھی کے بارے میں نہیں بول رہے تھے۔ وہ خود سیاسی خاندان کے جانشیں ہیں۔ ان کی ماں اندرا گاندھی کے کافی قریب تھیں اور وہ مہاراشٹر کانگریس کی سابق صدر بھی تھیں۔ چوہان امریکہ میں ملازمت کر رہے تھے اور کافی خوش تھے، لیکن ان کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے راجیو گاندھی نے انھیں واپس سیاست میں بلا لیا۔ حالانکہ انھوں نے آج بی جے پی سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں میں موجود بھائی-بھتیجاواد کے خلاف دلیلوں کو قبول کیا لیکن ان کی زیادہ توجہ 2014 کے انتخابات کے دوران ’آیا رام‘ اور ’گیا رام‘ لیڈروں پر تھی۔

مئی 2014 میں لوک سبھا انتخابات اور اس کے 6 مہینے بعد اکتوبر 2014 میں ہوئے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے درمیان کانگریسیوں کی ایک بڑی بھیڑ اور شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی سے بھی کئی لوگ بی جے پی میں گئے تھے۔ امت شاہ نے دونوں ہی پارٹیوں کے کئی ممکنہ فاتحین کا احتیاط سے انتخاب کر کے انھیں لالچ دیا اور اسمبلی کا ٹکٹ بھی دیا۔ ان میں سے زیادہ تر نے فتح حاصل کی، لیکن جو لوگ کانگریس میں بچے رہے ان میں زیادہ تر بچے، جوان یا بوڑھے اور سابق کانگریسی تھے اور پارٹی سے ان کی وفاداری اور اس کی ثقافت میں ان کا اعتماد بی جے پی کے ذریعہ دی جانے والی کسی بھی لالچ سے کہیں زیادہ مضبوط تھا۔

اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی سے نریندر مودی و امت شاہ کے ذریعہ بی جے پی میں لائے گئے بہت سارے دلت ممبران پارلیمنٹ کی بے چینی سامنے آنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ اب پارٹی سے بہت سارے لیڈر واپس ان پارٹیوں میں لوٹیں گے جہاں سے وہ آئے تھے۔

کرناٹک میں بی جے پی کے امکانات ذرا بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سابق معاون تیلگو دیشم پارٹی کے این ڈی اے اتحاد سے الگ ہونے اور اکتوبر 2014 میں اتحاد سے نکال دی گئی شیو سینا کے ذریعہ اتحاد میں واپس آنے کے لیے دئیےجا رہے ہر طرح کے لالچ کو ٹھکرا دیے جانے سے مستحکم تصور کیا جانے والا یہ اتحاد کمزور ہوا ہے۔

این سی پی لیڈر پرفل پٹیل کے ذریعہ کنارے لگا دیے گئے سابق کانگریسی رہے گونڈیا سے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ نانا پٹولے پارٹی بدلنے والے پہلے شخص تھے جنھوں نے دیوار پر لکھی عبارت پڑھ کر بہت پہلے ہی اپنی لوک سبھا سیٹ چھوڑ دی تھی۔ انھیں کانگریس سے ٹکٹ مل بھی سکتا ہے یا نہیں بھی مل سکتا ہے، لیکن بی جے پی میں ایسے کئی ممبران پارلیمنٹ ہیں جو یہاں سے نکلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور کسی بھی وقت پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ ایسے سبھی لیڈروں میں موسم کے سب سے موافق رہنے والے مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے بھی مخالفانہ آواز اٹھا رہے ہیں اور بہت جلد ایل سی پی میں لوٹ سکتے ہیں۔

جو کچھ ہو رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مودی اور شاہ دونوں کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ بی جے پی کے ایک خاص لیڈر نے اظہارِ فکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں نے دیویندر فڑنویس اور نتن گڈکری سمیت پارٹی میں کئی لوگوں کو غلط طریقے سے پریشان کیا ہے۔ لیکن آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ چوہان کے بیان کے مطابق یہ دونوں ہی پرعزم خاندانی جانشیں ہیں (دونوں کے والد آر ایس ایس میں تھے)۔ ایسے کئی دیگر لوگ ہیں جو اب اپنے خود کے مستقبل سے متعلق فکرمند ہیں۔

بی جے پی کے اس خاص لیڈر نے کہا کہ پارٹی کو مرحوم پرمود مہاجن جیسے ماہر آرگنائزر کی فوری ضرورت ہے جو لوگوں کو اتحاد میں بنائے رکھنے کے لیے نرم لہجے میں بات کر سکتا ہو، ورنہ نتیش کمار اتحاد چھوڑنے والے اگلے لیڈر ہو سکتے ہیں۔ مودی اور شاہ کو انتخابی مشینوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جنھیں انتخابات میں جیتنے کے لیے خود کے علاوہ کسی اور کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ لیکن یہ خوبی اب بوجھ میں بدل رہی ہے۔ دونوں تجاویز سے متعلق بہت نرم نہیں ہیں اور نہ ہی کچھ سننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

گئو رکشا سے انھیں کم فائدہ ہو رہا ہے۔ کسانوں سمیت کئی طبقات کے لوگ حکومت کی ان منمانی پالیسیوں سے پریشان ہیں جو ان کے اقتصادی مفادات کے خلاف ہیں۔ نوٹ بندی کا اثر اور غلط طریقے سے نافذ کیے گئے جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروبار اور تاجروں کی اصل بنیاد کو متاثر کیا ہے اور ان کے کسی بھی لالچ بھرے منصوبے کو عوام کے درمیان تعریف نہیں مل رہی ہے۔

لگاتار تین بار سے بی جے پی کے ایک لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ نے حال ہی میں امت شاہ کو اس بات سے مطلع کرایا کہ ان کے علاقے کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ بی جے پی حقیقت میں کب ان کے لیے کچھ کرنے جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ووٹرس پوچھ رہے ہیں کہ مودی حکومت کی فصل بیمہ، لائف بیمہ جیسے ہر منصوبے میں انھیں حکومت کو کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے، بھلے ہی وہ پانچ یا دس روپے ہو، لیکن یہ غریب دیہی عوام کے لیے ایک بڑی رقم ہے۔ اگر وہ ان رقوم کی ادائیگی کر بھی دیں تو بھی ان کی میعاد 20 یا 50 سال ہوتی ہے اور اس لیے وہ اس کے فائدہ کو دیکھنے کے لیے شاید ہی زندہ رہیں۔

ممبر پارلیمنٹ نے یہ بھی بتایا کہ عوام کا کہنا ہے کہ آخری بار اگر کسی حکومت نے ان کے لیے کچھ کیا تھا تو وہ روزگار گارنٹی منصوبہ، منریگا تھا جس نے انھیں ایک متعین آمدنی (بغیر کچھ لیے) دستیاب کرایا تھا۔ لیکن مودی حکومت انھیں ایم ایس پی بھی دینے میں نااہل ہے۔ مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا مودی-شاہ کی جوڑی کچھ سننے کی خواہشمند تھی۔ اپنے علاقے کے لوگوں کا سوال اٹھانے والے ممبر پارلیمنٹ کے مطابق جب انھوں نے دونوں اعلیٰ لیڈروں کے سامنے اس فکر کو ظاہر کیا تو انھیں اتنے سخت انداز میں خارج کر دیا گیا کہ انھیں اپنے وقار اور خودداری پر چوٹ محسوس ہوئی۔ اور اب وہ پھر کبھی ان دونوں سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

جو لوگ آر ایس ایس سے پرانا رشتہ رکھتے ہیں یا پھر جن کے والدین بی جے پی میں ہیں وہ قیادت میں تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی کے ایک قریبی کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اپنی تعداد بڑھانے اور خود کو مضبوط بنانے کے لیے جن ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی بڑی تعداد کو پارٹی میں شامل کرایا تھا وہ لوگ ان پارٹیوں سے بات چیت شروع کر چکے ہیں جہاں سے انھوں نے ہجرت کی تھی۔

اقتدار کی بو انھیں بی جے پی میں لانے والی واحد چیز تھی۔ مودی اور شاہ میں ایشوز کی کوئی سمجھ نہیں ہونے اوربہتر مشوروں کو سننے کے تئیں عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ اب شکست کو آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ انھیں بی جے پی میں روکے رکھنے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے اندر جلد ہی ایک بھگدڑ کا امکان صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined