کیا 2019 کے لئے آر ایس ایس کی ترجیحات بدل گئی ہیں ؟ کیا نریندرمودی، آر ایس ایس کی نظر میں بھی اب اپنی افادیت کھوچکے ہیں اور کیا اب مودی کے متبادل کے طورپر یوگی کو ابھارا جارہا ہے؟ یہ سوالات کچھ اس لئے بھی لوگوں کے ذہن میں کلبلانے لگے ہیں کہ ابھی حال ہی میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیرالہ کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بی جے پی کے ذریعہ شروع کی گئی عوامی تحفظ یاترا میں حصہ لیا ہے۔ چند روز بعد وہ متھرا میں بھی ایک ایسی تقریب کا حصہ تھے جس میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت بھی بہ نفس نفیس تشریف فرماتھے۔ اس تقریب میں یوگی نے جس طرح آر ایس ایس کی شان میں قصیدے پڑھے، اس سے بھی مودی نواز حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یوگی مودی کوپسند نہیں ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یوگی کو اپنی کابینہ کا حصہ بھی نہیں بنایا تھا۔ ایسے میں اگر یوگی کو اترپردیش کی کمان سونپی گئی تو اس میں بھی آرایس ایس کا ہی رول تھا۔ اگرچہ یہ خبریں بھی گشت میں تھی کہ یوگی اس بار باغیانہ موڈ میں تھے، اور کسی بھی طرح اترپردیش کا وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن سچائی یہی ہے کہ انہیں آر ایس ایس کی ایما پر ہی، وزیراعلیٰ بنایاگیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ آخر یوگی مودی کو کیوں پسند نہیں ہیں؟ جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ مودی ایسے کسی شخص کو پسند نہیں کرتے جو آگے چل کر کسی موقع پر ان کے لئے سیاسی خطرہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور اس کے لئے امت شاہ کو آگے لایاگیا۔ اگرچہ امت شاہ کے مرکز اور پارٹی میں بڑھتے اس سیاسی قد سے پارٹی کے بہت سے لیڈروں کو پریشانی تھی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس پر آر ایس ایس بھی خاموش ہے تو ان لوگوں نے بھی چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ظاہر ہے اس وقت مودی کو چھیڑنے کی حماقت نہیں کی جاسکتی تھی، وہ نہ صرف شہرت کی بلندیوں پر تھے، بلکہ بی جے پی کو غیر معمولی اکثریت سے ہمکنار کرواکر وہ آر ایس ایس کے بھی چہیتے بن گئے تھے۔
جولوگ مودی کے کام کرنے کے اسٹائل سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ گجرات میں بھی انہوں نے یہی کیا تھا، پارٹی اور اقتدار دونوں پر ان کی پکڑ مضبوط تھی اور یہی کام انہوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں مودی آر ایس ایس کے تمام فیصلوں پر اپنی مہر لگاتے رہے ہیں لیکن پارٹی اور اقتدار دونوں کو انہوں نے اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ مودی کے بعد جو کچھ ہیں وہ امت شاہ ہیں، اس کے بعد ارون جیٹلی کا نمبر آتا ہے۔ اس حوالہ سے بی جے پی کے سینئر لیڈر اور صحافی ارون شوری کا یہ تبصرہ دلچسپ ہی نہیں مبنی برحقیقت ہے کہ ڈھائی لوگ سرکار چلارہے ہیں۔
بی جے پی کے اندر بھی بیشتر لوگ مودی کے اس انداز حکمرانی سے خوش نہیں ہیں لیکن آر ایس ایس کے خوف سے پچھلے تین برس سے چپ ہیں اور خاموش آنکھوں سے بے بسی کی حالت میں یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال اب صورت حال قدرے تبدیل ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکار تقریباً ہر محاذ پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اب تک کوئی بھی ایسا بنیادی کام اس سرکار نے نہیں کیا ہے کہ جس سے عام شہریوں کو فائدہ پہنچا ہو۔ پھر چند بڑے فیصلے ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے عوامی سطح پر مودی کی مقبولیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ’نوٹ بندی‘ فلاپ رہی، رہی سہی کسر جی ایس ٹی کے جبریہ نفاذ نے پوری کردی۔ ان دونوں فیصلوں نے ملک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شرح نمو گھٹ کر اب تک کی سب سے نچلی سطح پر جا پہنچی ہے۔ مذہبی شدت پسندی کو ہوادے کر اور ہمیشہ کی طرح جملہ بازی کرکے ان تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی شاطرانہ کوشش ضرور ہوئی مگر ناکام رہی۔ اعداد و شمار آئینہ بن کر لوگوں کے سامنے آگئے ہیں۔ بی جے پی کے دوسینئر لیڈروں نے بھی ان سب کے خلاف آواز بلند کرکے خاموشی کے جمود کو جہاں توڑنے کا حوصلہ کیا ہے، وہیں دبے لفظوں میں آر ایس ایس نے بھی سرکار کی اقتصادی پالیسی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ حال ہی میں دشہرہ کے موقع پر اپنے سالانہ خطاب میں آر ایس ایس سربراہ نے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہی ہے کہ آر ایس ایس مودی سرکارکی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اس سے پہلے بعض اخباروں میں یہ خبر بھی چھپ چکی ہے کہ آر ایس ایس نے بی جے پی صدر کو یہ انتباہ دے دیا ہے کہ اگرکارکردگی کا پیمانہ یہی رہا تو بی جے پی دوبارہ اقتدار میں نہیں آپائے گی کیونکہ عام لوگوں میں اب عدم اطمینان کا احساس پیدا ہورہا ہے۔
ان سب کے درمیان یوگی کو جس طرح کیرالہ بھیجاگیا، اس کے بعد سے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ ویسے امت شاہ اور یوگی نے کیرالہ کا الگ الگ دورہ کیا ہے لیکن اب یہ کہاجارہا ہے کہ آر ایس ایس کی ہدایت پر ہی یوگی کے دورے کا اہتمام کیاگیا لیکن اس دورے کے بعد مودی اور امت شاہ کے درمیان تلخی پیدا ہونے کی خبریں بھی گشت کررہی ہیں۔ ذرائع کے حوالہ سے ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اپنا کیرالہ کا دورہ ادھورا چھوڑ کر امت شاہ جب دہلی آئے تو کہاگیا کہ کسی ضروری میٹنگ کی وجہ سے لوٹے ہیں اور یہ ضروری میٹنگ، دونوں (مودی اور شاہ) کے درمیان تلخی کو دور کرنے کی غرض سے ہی ارون جیٹلی کی موجودگی میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ خبر بھی صحافتی حلقوں میں گشت کررہی ہے کہ آر ایس ایس یوگی کو گجرات میں انتخابی تشہیر کا چہرا بنانا چاہتی ہے، اس پر مودی کو شدید اختلاف ہے کیونکہ اگر ایسا ہواتو مودی کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس کے نظریہ ساز بھی شاید یہ محسوس کرچکے ہیں کہ اس بار گجرات کی راہ آسان نہیں ہے۔
آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر بی جے پی گجرات میں ہاری تو اس کے مستقبل کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور پورے ملک میں اس کا غلط پیغام بھی جاسکتا ہے اس لئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہی یوگی کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آر ایس ایس کا مشن ابھی ادھورا ہے اور اس کے لئے اسے مزید اقتدار چاہئے۔ بی جے پی میں یوگی کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا لیڈر نہیں ہے جس پر آر ایس ایس ’ہندوتوا‘ کا داؤ کھیل سکے۔ سمجھاجاتا ہے کہ اپنے مستقبل کے اس پلان سے آر ایس ایس نے امت شاہ کو آگاہ کردیا ہے، شاہ، مودی کے دست راست ضرور ہیں لیکن وہ آر ایس ایس کی ہدایت کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کرسکتے جبکہ پارٹی صدر کی حیثیت سے مودی، چاہتے ہیں کہ امت شاہ اس سلسلے میں اپنے طورپر فیصلہ کریں۔ ’میڈیا‘ میں آنے والی ان خبروں میں کس حد تک صداقت ہے، کہا نہیں جاسکتا لیکن یوگی کے لئے کیرالہ دورے کا اہتمام اور اس کے فوراً بعد متھرا کی ایک مذہبی تقریب میں موہن بھاگوت کے ساتھ یوگی کی موجودگی یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ اب مودی پر سے آر ایس ایس کا بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور شاید اسی لئے کسی نئے متبادل کو سامنے لانے کا کھیل بھی شروع ہوگیا اور یہ متبادل یوگی سے بہتر کیا ہوسکتا ہے، وہ انہیں ’ہندوتوا‘ کا نیا بڑانڈ ایمبیسڈر بناکرکامیابی کے ساتھ پیش کرسکتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ایسا ہوا اور مودی کی منشاءکے خلاف یوگی کو آگے لانے کی کوشش ہوئی تو بی جے پی میں اختلافات مزید بڑھیں گے اور اندر ہی اندر جو لاوا ابل رہا ہے وہ پھٹ کر باہر بھی آسکتا ہے۔
Published: 26 Oct 2017, 9:33 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Oct 2017, 9:33 PM IST